”کنٹرول لائن جہنم بن گئی‘ کشمیریوں کو اس عذاب سے نجات چاہئے“

Oct 30, 2013

کپواڑہ (بی بی سی اردو ڈاٹ کام) کنٹرول لائن کے نزدیک رہنے والے لوگ موت کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ہر طرف خوف اور بے یقینی کے ڈیرے ہیں۔ کنٹرول لائن ہمارے لیے جہنم بن گئی ہے۔ کشمیریوں کو اس عذاب سے نجات چاہئے۔ یہ الفاظ ہیں کنٹرول لائن کے نزدیکی قصبے لنگیٹ کے رکن اسمبلی اور سماجی کارکن انجینئر عبدالرشید کے۔ اوڑی، پنچھ، آوورہ اور تنگ ڈار جیسے سرحدی علاقوں میں کشیدگی کے درمیان زندگی انتہائی مشکل ہو گئی ہے۔ تنگڈار کے باشندے نثار احمد لون کہتے ہیں ’جب گولہ باری ہوتی ہے یا بارودی سرنگ پھٹتی ہے تو کسی کا بازو جاتا ہے، کسی کا پیر جاتا ہے۔ کوئی مارا ہی جاتا ہے۔ یہ سارا بارڈر بہت خطرناک ہے۔‘ خود لون کے پیر میں لوہے کی چار راڈیں لگی ہوئی ہیں۔ آوورہ کے محمد اقبال کہتے ہیں بس موت کے سائے میں زندگی بسر ہو رہی ہے، نہ گھروں میں محفوظ ہیں اور نہ باہر جا سکتے ہیں۔ شام کو پتہ نہیں ہوتا سویرا ہو گا۔ واجپائی کے دور حکومت میں 2003 میں کنٹرول لائن پر جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا۔ کشمیر کے حوالے سے یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔ اس پر پوری طرح عمل ہوا، حالات بہتر ہوئے اور رشتوں میں بہتری آئی لیکن اس سال کے آغاز کے ساتھ ہی جنگ بندی کی خلاف ورزیاں شروع ہو گئیں۔ گزشتہ تین مہینے میں دو سو سے زیادہ خلاف ورزیوں کی اطلاعات ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کنٹرول لائن پر کشیدگی سے ہر طرف گھبراہٹ پھیلی ہوئی ہے۔ اوڑی اور پنچھ کے بعض علاقوں میں لوگ محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے ہیں۔ جو لوگ امن کی باتیں کر رہے تھے وہ بھی جوابی کارروائی کی باتیں کرنے لگے۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کہتے ہیں سممجھ میں نہیں آتا جب دونوں ملکوں نے جنگ بندی کے معاہدے سے اتفاق کیا تھا تو پھر اسے کون پامال کر رہا ہے؟ کنٹرول لائن پر اس وقت کشیدگی برقرار ہے۔ دونوں جانب کے فوجی کمانڈروں کی ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں۔ ایم ایل اے عبدالرشید کہتے ہیں کشمیریوں کی تمنا ہے جنگ بندی ایک بار پھر نافذ ہو، جنگ بندی ٹوٹنے سے کشمیریوں کا حوصلہ ٹوٹا ہے۔ ہر طرف بے یقینی ہے۔ جو لوگ سرحدوں پر رہ رہے ہیں وہی وہاں کے مصائب سمجھ سکتے ہیں دونوں ملکوں کے رہنماو¿ں کو مل بیٹھ کر بات چیت کرنی چاہئے اور کنٹرول لائن کے سوال کو انسانی جذبے سے حل کرنا چاہئے۔

مزیدخبریں