بدھ‘ 24 ؍ ذی الحج 1434ھ ‘ 30؍ اکتوبر2013ء

Oct 30, 2013

 پاکستان اور آئی ایم ایف میں تکنیکی نوعیت کی بات چیت شروع ہوگئی۔ یہ رمزو و کنایہ اور اشاروں کی زبان میں بات جو آئی ایم ایف پاکستان سے کرنے والا ہے آنے والے کسی طوفان کا پتہ دے رہا ہے۔جب بھی آئی ایم ایف نے کسی مسئلہ پر موضوع پر اپنے پیارے راج دلارے قرض دار پاکستان سے بات کی یا یہاں کوئی وفد بھیجا اس نے یہاں کی غریب عوام کا بھی کباڑہ کردیا۔اب چاہے اسے تکنیکی مذاکرات کہیں یا تخریبی مذاکرات اسکا نتیجہ غریب عوام کے ہی خلا ف آئے گا…؎
کاش کوئی مجھ کو سمجھاتامیری سمجھ میں کچھ نہیں آتا
 تکنیکی بنیادوں پر تو پاکستان کی معیشت اور مالی حالات پہلے ہی آئی ایم ایف کے ہاتھوں ٹیکنیکل آئوٹ ہوچکی ہے۔اب تو جیب ہماری سے روپے ان،  بنک ہمارے ہیں قرضے ان کے حد تو یہ ہے کہ جسم ہمارے ہیں جان انکی ہے۔وہ جب چاہیں ہماری جان نکال سکتے ہیںکیونکہ ہمارا ہر پید ا ہونے والا بچہ مبلغ 81 ہزار روپے کا قرضہ ساتھ لے کردنیا میں آتا ہے ۔گویا ہمارا عدم ہویا وجود دونوں آئی ایم ایف اور غیر ملکی قرض خواہوں کے ہاتھ رہن پڑا  ہے۔اس کے باوجود ہم خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہم آزاد ہیں ہمارے عیش پسند حکمران طبقے  نے ہماری آزادی اور خود داری بہت پہلے ہی غیر ملکی امداد اور قرضوں کے عوض فروخت کردی ہے۔اب تو یہ حالت ہے کہ ہم اپنا قرض ادا کرنے کیلئے بھی انہی اداروں سے قرضہ مانگتے ہیں جن کے پاس ہماری آنی والی نسلیں تک گروی ہیں۔٭…٭…٭…٭…٭ بی جے پی کا نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ کیلئے نامزد کرنا بچگانہ فیصلہ ہے۔ نیو یارک ٹائمز کا یہ تبصرہ بھارت کے آنے والے الیکشن کے بعد سامنے آنے والے منظر نامہ کی مکمل عکاسی کرتا ہے جس طرح سیانے ایک دانہ چاول چکھ کر ساری  دیگ کا اندازہ لگا لیتے ہیں لگتا ہے۔عالمی سطح پر دانشورں اور سیانوں کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ بھارت کی سیاسی بساط پر آئندہ نقشہ کیا ہوگا۔ کانگریس کی پالیسیاں بھی پاکستان کے خلاف رہی ہیں مگر بی جے پی کی پالیسیاں اور نریندر مودی کو وزیر اعظم کیلئے نامزد کرنا تو سونے پر سہاگہ معلوم ہوتا ہے۔بقول عدم…؎
 کیوں ڈھونڈتا ہے قتل کی خاطر تو برچھیاں کیا برچھیوں سے کم ہیں تیری دلربائیاں ہمیں تو لگتا ہے کہ جیسے کسی نے بارود سے بھری دکان میں چنگاری پھینک دی ہے۔ویسے یہ تو سیاسی دائو پیچ ہیں۔ اصل امتحان تو ہندوستان کے عوام کا ہے۔دیکھنا ہے کہ وہ الیکشن میں کیا قدم اٹھاتے ہیںوہ امن کی آشا چاہتے ہیں یا امن کی موت۔ فیصلہ انکے ووٹوں نے کرنا ہے۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ بھی ہمارے ووٹروں کی طرح پاکستان سے دوستی کے نا م پر اپنا ووٹ کاسٹ کریں اور نریندر مودی ’’نرامنہ‘‘ دیکھتے رہ جائیں۔٭…٭…٭…٭…٭ بلوچستان میں بیرونی مداخلت روکنے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے: وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک تو اب تک کیا ہاتھ پہ ہاتھ دھرے سب بیٹھے ہوئے تھے جس کی وجہ سے حالات اس حد تک پہنچ چکے ہیں۔ بیرونی مداخلت آسمان سے نہیں ہوتی۔ غیبی چیزیں نہیں کرتی یہ ہم جیسے لوگ ہی ہوتے ہیں جو مخالفین کے ہاتھوں میں آلہ کار بن کر جس شاخ پر بیٹھیں ہوں اسے کاٹتے ہیں اور بعد ازا ں نتائج بھگتنے اور یہ سوچتے ہیں…؎ اب نوح کہاں جو ہمیں کشتی پہ بٹھائے ورنہ کسی طوفان کے آثار تو سب ہیںآنے والے دور میں پاکستانی معیشت میں اہم کردارادا کرنے والے اس صوبے میں پہلے صوبائیت پھر فرقہ وارانہ تعصبات کو اس طرح ابھارہ گیا کہ بھائی بھائی کے مدمقابل آگیا۔ابھی یہ آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی علیحدگی پسندی کی ٹرین کو جو عرصہ سے کسی گمنام سٹیشن پر کھڑی خراٹے بھر رہی تھی جگایا گیا اور اب اسے اتنی چابی دی گئی کہ اب وہ فراٹے بھرتی ہوئی بلوچستان کے بلوچ اکثریتی علاقوں میں اندرونی اور بیرونی سواریوں کو لیے پھرتی ہے اور جہاں سے بھی گزرتی ہے تباہی کی ایک داستان چھوڑ جاتی ہے۔ہماری خفیہ ایجنسیاں، پولیس اور دیگر سکیورٹی ادارے کیا نہیں جانتے یہ سب کچھ کون کر رہا ہے ،اس میں کون ملوث ہے۔ آخر یہ جو اسمبلیوں میں بیٹھے ان علاقوں کے نمائندے ہیں یہ کس مرض کی دوا ہیں کیا یہ اس ’’بمبار ٹرین ‘‘کو روک نہیں سکتے ان سٹیشنوں کی سختی سے نگرانی نہیں کرسکتے جہاں سے اس میں سواریاں بیٹھتی ہیں۔ اگر منتخب عوامی نمائندے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مل کر کام کریں تو کچھ ہوگا ورنہ لاپتہ افراد کا سارا ملبہ بھی حکومت پر ہی گرے گا جو پہلے ہی ابتر حالات کی وجہ سے ادھ موئی ہوچکی ہے ۔اب وزیراعلیٰ ذرا اندرون خانہ بھی نظر دوڑائیں کہیں یہ سارا نوابوں اور سرداروں کا رچایا ہوا ڈرامہ تو نہیں جو انکی عوامی حکومت کو ناکام بنا کر دوبارہ راجہ سنگھاسن سنبھالناچاہتے ہوں۔٭…٭…٭…٭…٭شیخ رشید کو اپوزیشن لیڈر بنانے کی تجویز مسترد۔قومی اسمبلی میں یک نشستی جماعت کے اکلوتے رہنما سربراہ اور سرگرم کارکن شیخ رشید کی دشت نوردی کے دن ابھی ختم ہوتے نہیں لگتے۔ گذشتہ دنوں اطلاع تھی کہ قومی اسمبلی میں شور اٹھانے کیلئے کسی پُرزور اور پُردرد آواز کی ضرورت ہے جو عوام کے غم میں اُٹھائی جا سکے اور یہ کام سیاستدانوں اور قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے بعض شہ نشینوں کے نزدیک شیخ رشید سے بہتر کوئی انجام نہیں دے سکتا اور تو اور مسلم لیگ ق کے رہنما بھی اس پر سر تسلیم خم کئے ہوئے تھے کہ تحریک انصاف نے سارے خواب توڑ ڈالے ۔اب شاید شیخ صاحب کو عددی اکثریت کی اہمیت کا اندازہ ہو گیا ہو گا،ق لیگ کی سائیکل پر ان کیلئے اگر جگہ نکل سکتی ہو تو علیحدہ بات ہے اس سے ان کو تقویت ملے گی لیکن کیا ’’مٹی پائو‘‘ کی سیاست شیخ صاحب کو راس آ سکتی ہے۔ 

مزیدخبریں