لڑوگے، لڑیں گے۔ مروگے، مریں گے

لانگ مارچ، دھرنے، جلسے جلوس اور پھر، پھر کیا؟ مڈٹرم الیکشن؟ اگر تو کسی طور وسط مدتی انتخابات کا اعلان ہو جائے تو یہ سب جلسے جلوس موزوں اور مناسب معلوم ہونگے لیکن اگر کچھ نہ ہوا تو یہ اچھل کود کس کام کی؟
وطن عزیز میں سیاست اور کرکٹ ملتے جلتے کھیل ہیں۔ کس وقت پانسہ پلٹ جائے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اسی لئے ہمارے سیاستدان، سیاست کرکٹ کی طرح کھیلتے ہیں کیا پتہ کس وقت چوکا چھکا لگ جائے اسی لئے ہر وقت کریز پر رہنا پسند کرتے ہیں اور دوسروں کے نو بالز پر بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسری طرف آجکل کرکٹ کے کھلاڑی بھی ماشاءاللہ پوری آب و تاب کےساتھ سیاست کھیل رہے ہیں شاید کبھی وقت By chance جیت سے ہمکنار ہو جائیں۔ بہر حال سیاست ہو یا کرکٹ ہر طرف سوئنگ کے سلطان ایک دوسرے کو کلین بولڈ کرنے کے درپے ہیں کس وقت نتیجہ کیا نکل آئے کسی کو کچھ معلوم نہیں اور نہ ہی قبل از وقت کچھ کہا جاسکتا ہے لیکن کیا معلوم کس وقت وسط مدتی انتخابات کا اعلان ہوجائے اور یہ اچھل کود کام آجائے۔دھرنوں کے طول پکڑنے کے بعد جب عمران خان نے شہر شہر جلسے کرنے کا اعلان کیا تو کرکٹ کے، معاف کیجئے گا سیاست کے مبصرین نے کہا کہ عمران نے دھرنوں سے طاہرالقادری بھی شامل ہوگئے اور وہ بھی شہر شہر اپنا پیغام لے کر پہنچ رہے ہیں۔ انکے بارے میں بھی ”مبصرین“ نے ملتی جلتی طبع آزمائی کی تاہم اب جبکہ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی بھی اس میدان میں کُود پڑی ہیں تو معاملہ محض دھرنوں سے فرار تک محدود نہیں رہا بلکہ آگے بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔
اس معاملے کا اگرہمہ جہتی جائزہ لیا جائے تو سیاستدانوں کے طرزِ تخاطب سے اولین طور پر تو مڈٹرم الیکشن کا شائبہ ہوتا ہے۔ کیونکہ جلسوں میں منشور پیش کئے جا رہے ہیں اور براہ راست کہا جارہا ہے کہ ہماری حکومت آئیگی تو یہ کرینگے وہ کرینگے، میں وزیراعظم بنا تو یہ ہوگا یہاں تک کہ نوٹ، ووٹ، سپورٹ مانگے جا رہے ہیں، گویا ملک بھر میں پے درپے جلسوں کے انعقاد سے وسط مدتی انتخابات کی بو آنے لگی ہے۔ تیسری موج فکر یہ بھی ہوسکتی ہے کہ،، یہ فقط بھیڑ چال ہے۔ ایک نے جلسہ کیا تو دوسرا پیچھے کیوں رہ جائے۔ دوسروے نے کیا تو تیسرا ! کبھی کبھی یہ سیاستدان لوگ معصوم بچوں کی طرح دکھائی دینے لگتے ہیں۔ ایک کہتا ہے میرا جلسہ بڑا جلسہ ہے پھر دوسرا کہتا ہے میرا جلسہ بڑا ہے تیسرا کہتا ہے نہیں نہیں میرا جلسہ تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ہے۔ پر لڑ پڑتے ہیں، اور پھر صلح بھی ہو جاتی ہے اور پھر بہر حال قارئین کرام پریشان نہ ہوں، کرکٹ اور سیاست میں لڑائیاں اورصلح صفائیاں ہوتی رہتی ہیں لیکن بھیڑ چال میں تو کچھ سوچا نہیں جاتا بس ایک نے جس طرف منہ اٹھایا باقی سب بھی پیچھے پیچھے چل نکلے۔ تو پھر اچھل کود کا فائدہ؟کچھ فائدہ ہونہ ہو نواز حکومت کو تو نقصان ہوگا اور کاروبار میں ایک کا نقصان دوسرے کا فائدہ ہی تو ہوتا ہے۔ جی ہاں ایک سیاستدان کا نقصان ہوگا تو دوسرے کا فائدہ ہوجائیگا۔ مگر اس فائدے کا نقصان کے کھیل میں عوام کا کیا ہوگا۔ فائدہ یا نقصان؟
گر تو جلسے جلوسوں کے دباﺅ سے وسط مدتی انتخابات کا انعقاد ممکن ہو جاتا ہے اور اس انتخابات کے نتیجہ میں تبدیلی رونما ہوجاتی ہے اور اس تبدیلی کے نتیجہ میں عوام کو سکھ کا سانس میسر آجاتا ہے تو پھر تو یقیناً فائدہ ہی فائدہ ہے ورگرنہ انتخابات سے قبل تو ہر سیاستدان عوام ہی کا دم بھرتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اسمبلی میں پہنچ کر پہلی تقریر میں بھی عوام ہی کے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائی جاتی رہی ہیں مگر کچھ ہی دیر بعد سب کچھ نظر بد کی نذر ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ فوراً ہی دوسرے کھلاڑی سوئنگ بال کرانا شروع کر دیتے ہیں اور پھر سے میچ پڑ جاتا ہے۔ ہماری تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ ہم کبھی اس میچ سے باہر نہیں نکل پا رہے جبکہ میچ ہے کہ نہ جیت سے ہمکنار ہوتا ہے نہ ہار سے اور نہ ہی ڈرا ہوتا ہے اور عوام بے چارے فیلڈنگ کر کر کے ”پھاوے“ ہو چکے ہیں۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ کوئی مڈ ٹرم الیکشن وغیرہ نہ ہو اور سیاستدان تھک ہار کر بیٹھ جائیں یا سب یوں ہی لگے رہیں۔ ”منا بھائی“ اور وقت گزرتا رہے اور عوام دیکھتی رہے، اگر غور کیا جائے تو کسی بھی انتخاب کے ساتھ تین طرح کے افراد کی وابستگیاں ہوسکتی ہیں ایک وہ جو براہ راست انتخاب میں حصہ لیتے ہیں، دوسرے پارٹی ورکرز، جو دووٹرز بھی ہوتے ہیں اور تیسرے عمومی ووٹرز، اور یاد رہے کہ تیسرا گروپ ہی تعداد ہی سب سے بڑا گروپ ہوتا ہے۔ پہلے دو گروپ بلاواسطہ ذاتی مفادات کے دائرے میں گھوم رہے ہوتے ہیں جبکہ تیسرا گروپ حقیقی معنوں میں ملک و قوم کی تعمیروترقی اور عوام کے حقوق کا تحفظ چاہتا ہے۔ موجودہ جلوسوں کی کارروائیوں میں بھی پہلے دو گروپ ہی متحرک دکھائی دیتے ہیں جبکہ تیسرا بڑا گروپ ان جلسے جلوسوں کے مضمرات کا شکار ہے۔ اس بڑے گروپ کے نزدیک جمہوریت کا مفہوم تو یہ ہے کہ پانچ برس بعد ملک میں چند ماہ کیلئے انتخابی سرگرمیاں ہوں جس کے نتیجے میں صاف اشفاف انتخابات، منعقد ہوں اور پھر عوام کی نمائندہ حکومت برسراقتدار آئے اور وہ ملک اقوام اور عوام کی فلاح و بہبودی بٹ جائے اور پھر کارکردگی کی بنیاد پر دوبارہ عوام کی عدالت بھی جائے وغیرہ۔ لیکن ہمارے ہاں آخر ایسا کیوں نہیں ہو رہا۔ آئے دن انتخابات، جلسے جلوس، دھرنے، رسہ کشی مار دھاڑ، سڑکیں بند، ہڑتالیں، ایمولینسوں بیماروں کا مرنا، جلسوں میں دم گھٹ جانا، فلائٹ نکل جانا، کاروبار ٹھپ، دفتروں سے چٹھی، سکولوں سے چھٹی وغیرہ وغیرہ وغیرہ،، ذوالفقار علی بھٹو کا وہ جلسہ جس میں انہوں نے عوام سے وعدہ لیا تھا، کسے یاد نہیں ہے۔لڑو گے، لڑیں گے۔ مرو گے، مریں گے۔ اور آج تک عوام مرتے چلے جا رہے ہیں‘ آگے کیا ہو؟ دعا کیلئے ہاتھ ضرور اٹھائیں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...