آج کل گرمی سردی کا موسم ہے چنانچہ ملکی سیاست بھی نتیجتاً ’’گرم سرد‘‘ ہو رہی ہے۔ اپنے طاہرالقادری اسی ’’گرمی سردی‘‘ میں واک آؤٹ کر گئے ہیں جس سے ممکنہ شکست سے خائف پریشان حال حکمرانوں کو ’’واک اوور‘‘ مل گیا ہے اور جسے وہ اپنی فتح سمجھتے ہیں۔ بعض دوست طاہر القادری کے اس ’’واک آئوٹ‘‘ کو ناک آئوٹ سے موسوم کر رہے ہیں اور شاید اپنے تیئں بجا کہہ رہے ہیں کہ…؎
ہائے اس کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا
ہر چند وہ اپنے حصے کا ذہنی انقلاب برپا کر چکے تاہم پھر بھی ’’سوالات‘‘ کا جنم لینا فطری امر ہے۔ عمران خان البتہ ابھی تک ’’پُوترے‘‘ ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ حکمرانوں کو رخصت کئے بغیر، رخصت نہیں ہوں گے حالانکہ حکمران پہلے ہی ’’رخصت‘‘ پر ہیں کیونکہ عوام کو انکی ضروریات کی فراہمی، اور انکے حقوق کی پاسداری کے ضمن میں تو ہمارے حکمران ہمیشہ ہی سے طویل رخصت پر چلے آ رہے ہیں، تاہم نجی ’’امور‘‘ کو نمٹائے اور ذاتی ’’فرائض‘‘ کی بجاآوری کیلئے انہوں نے اپنی ہفتہ وار چھٹی کو بھی مؤخر کر رکھا ہے ہر حال میں اپنے لئے ’’مثبت‘‘ نتائج کشید کرنے کا ’’آہنی‘‘ عزم رکھنے والے حکمران اس حوالے سے کسی قسم کی ’’گرمی سردی‘‘ کی پرواہ نہیں کرتے۔ پرواہ تو عمران خان بھی کسی کی نہیں کرتے اسی لئے تو موصوف نے اسلام آباد جیسے جامد شہر اور اس کے ساکت ماحول میں ایک مختلف قسم کی گرمی سردی پیدا کر رکھی ہے۔ حالات جیسے بھی ہوں اور نتائج کیسے بھی ہوں لیکن عمران کے دھرنے نے فی الحال تو ایک ہنگامہ خیز صورت حال پیدا کر رکھی ہے اور جو لوگوں کی ایک کثیر تعداد کی توجہ کا مرکز ہے۔ تبدیلی کے خواہاں وہ لوگ بھی متوجہ ہیں جو دھرنے میں شریک ہو کر عمران کو دیکھتے ہیں اور وہ لوگ بھی جو محض ٹی وی پر اسے سنتے ہیں اور حالات میں کسی نئے پن کی امید لگائے بیٹھے ہیں اور یہ خاموش اکثریت ہے۔ بظاہر عمران کا دھرنا جزوقتی ہے اور قادری صاحب کا دھرنا کل وقتی تھا لیکن بالآخر ’’فرق‘‘ صاف ظاہر ہو گیا، ایک دھرنا تو دھر دیا گیا جب کہ دوسرا ’’دھر‘‘ لیا گیا، یا دھرے کا دھرا رہ گیا۔ طاہر قادری نے شارٹ کٹ مارا اور ’’پتلی گلی‘‘ سے نکل گئے۔ عمران خان البتہ طول طویل راستے پر ہو لئے یہ یقیناً اپنی اپنی افتاد طبع کا معاملہ ہے۔ اگلے سال ’’منزل‘‘ تک رسائی کی امید انہیں خراماں خراماں رواں دواں رکھے ہوئے ہے، کسی بھی گرمی سردی کی پرواہ اور احساس کے بغیر۔ گرمی سردی تو کسی حد تک ایم کیو ایم نے بھی پیدا کر رکھی ہے۔ علیحدہ صوبے کے قیام کے مسئلہ پر اور بے جان اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے متنازعہ بیان کے حوالے سے خورشید شاہ نے سادہ لوحی میں ایک حساس بیان داغ دیا اور نتائج وعواقب کا ’’اندازہ‘‘ ہونے کے بعد معافی بھی مانگ لی اور کئی عذر بھی تراش ڈالے لیکن عذر گناہ بدتر از گناہ کے مصداق بات گرمی سردی تک پہنچ گئی۔ ایم کیو ایم کو چاہئے کہ وہ خورشید شاہ کی معافی کو قبول کر لے اور خورشید شاہ اور ان کی پارٹی ایم کیو ایم کو انتظامی بنیادوں پر جائز حد تک خود مختاری دینے پر غور کرے کہ ’’مرکزیت‘‘ سے عدم مرکزیت کی طرف راجعت وقت کا اہم تقاضا ہے۔ نیز یہی اصول تمام صوبوں سے روا رکھا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم میں جاری اس گرمی سردی کے ساتھ ساتھ ایک اور طرح کی گرمی سردی مولانا فضل الرحمان کے افسوسناک ’’بیانات‘‘ نے بھی پیدا کی ہوئی ہے جو وہ وقتاً فوقتاً عمران کے دھرنوں کے حوالے سے داغتے رہتے ہیں۔ مولانا جیسے دھیمے مزاج اور شائستہ اطوار سیاست دان سے اس طرح کے بیانات اور خیالات کی توقع ہرگز ہرگز نہیں کی جا سکتی لیکن برا ہو ہمارے ہاں کی ’’سیاست‘‘ کا یہ بڑا ظالمانہ کھیل بن چکا ہے۔ یہاں زبان پھسلتی اور پگڑی اچھلتی ہے۔ شخصی ادب آداب اور صنفی لحاظ و خیال کئے بغیر کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا ہے اور کسی کو بھی کہہ سکتا ہے۔ عمران کے جلسوں میں مولانا کے بارے جو کچھ کہا اور سنا جاتا ہے یقیناً وہ بھی ناروا ہے۔ حرف آخر کے طور پر عرض ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں ایک مرتبہ پھر اضافہ کرکے حکومت بھی ماحول میں ’’گرمی سردی‘‘ پیدا کرنے میں پیچھے نہیں رہی۔ عوام بدحال اور حالات دگرگوں ہیں۔ ایسے میں بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے اور بے پایاں مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ بجلی کے محکمے کا اپنا بھی برا حال ہے۔ سرکاری اداروں میں کرپشن اور اقربا پروری زوروں پر ہے۔ شنید ہے ’’حکام بالا‘‘ اپنی ’’قیمت‘‘ پانچ ہزار سے شروع کرکے پانچ کروڑ تک لے جاتے ہیں اور یہ سب کچھ حکومتی سرپرستی میں ہو رہا ہے۔ حکمران اور ادارہ جاتی سربراہان ڈریں اس وقت سے جب مجبور، مقہور اور مظلوم عوام ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے مصداق ایک ایسی ’’گرمی سردی‘‘ پیدا کر دیں جو ’’ذمہ داران‘‘ کو یا تو نقطۂ انجماد تک لے جائے یا پھر کھولتے ہوئے درجہ حرارت تک حالات اور واقعات کا رخ یقیناً اسی طرف ہے۔