’’فتنہ انکار پاکستان ‘‘

سال 2008ء کا کوئی ماہ تھا جب میں جناب مجید نظامی کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان کے سامنے میز پر ایک کتاب رکھی ہوئی تھی ۔ جب ان سے مختصر سی ملاقات کے بعد میں واپس آنے لگا تو انہوں نے مجھے کہا کہ پروفیسر فتح محمد ملک کی اس کتاب ’’ فتنہ انکار پاکستان‘‘ کا مطالعہ آپ ضرور کریں ۔ مجھے تجسس ہوا کہ اس کتاب میں ایسی کون سی بات ہے کہ نظامی صاحب مجھے بھی یہ کتاب پڑھنے کی ہدایت کر رہے ہیں۔ دو تین بڑی دکانوں سے کتاب تلاش کی تو میں ناکام رہا۔ ایک دو دفعہ خیال آیا کہ کتاب نظامی صاحب سے مانگ کر پڑھ لی جائے مگر اس کا حوصلہ نہ ہوا۔
16اکتوبر 2014ء کو فتح محمد ملک صاحب کا ایک مضمون نوائے وقت میں شائع ہوا۔ اس مضمون میں انہوں نے ذکر کیا کہ جنرل مشرف کے دور میں چودھری شجاعت حسین وغیرہ نے یہ تجویز دی تھی کہ چودھری رحمت علی مرحوم ہمارے قومی ہیرو ہیں۔ اس لئے ہمارا فرض بنتا ہے کہ انگلستان میں عیسائیوں کے قبرستان سے انکی میت نکال کر پاکستان لائی جائے اور یہاں ان کو ایک قومی ہیرو کے طور پر دفن کیا جائے۔ پروفیسر محمد ملک لکھتے ہیں کہ انہوں نے اس تجویز کیخلاف ایک کالم سپرد قلم کیا کہ چودھری رحمت علی تو تحریک پاکستان کی مخالفت میں سر گرم عمل رہے ہیں اور قائد اعظم کے تصور پاکستان کیخلاف انکی نازیبا تحریروں اور خود قائد اعظم کی شان میں چودھری رحمت علی کی ہرزہ سرائی کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ چودھری رحمت علی نے 14اگست 1947کو قائم ہونیوالے پاکستان کو ملت سے بد ترین غداری کا نام دیا تھا۔ پروفیسر فتح محمد ملک فرماتے ہیں کہ جب جنرل پرویز مشرف نے ان کا کالم پڑھا تو چودھری رحمت علی کی میت کو پاکستان لانے کا فیصلہ منسوخ کر دیا۔
پروفیسر فتح محمد ملک کا 16اکتوبر کا مضمون پڑھ کر میں نے ان سے رابطہ قائم کیا اور گزارش کی کہ ہمارے ہاں کچھ لوگ چودھری رحمت علی کو لفظ پاکستان کے خالق کے طور پر تحریک پاکستان کا مجاہد اور ایک قومی ہیرو سمجھتے ہیںجب کہ آپ اس سے یکسر مخالف مئوقف رکھتے ہیں تو آپکے دلائل کس مواد کی بنیاد پر ہیں۔ پروفیسر صاحب نے انتہائی شفقت سے میرے سوال کا جواب بھی دیا اور چند دنوں بعد مجھے انہوں نے اپنی ایک کتاب بھی بھیج دی۔ یہ وہی کتاب تھی جس کا مطالعہ کرنے کی مجھے جناب مجید نظامی نے ہدایت کی تھی۔ فتح محمد ملک نے اپنی کتاب کے پہلے لفظ ہی میں یہ وضاحت کر دی ہے کہ انکے یہ سارے مضامین نوائے وقت میں شائع ہو چکے ہیں اور ان میں سے زیادہ مضامین کے محرک انکے محب گرامی مجید نظامی ہیں۔ میںیہ کتاب پڑھنے کے بعد اعتراف کرتا ہوں کہ اگر میں اس کتاب کا مطالعہ نہ کرتا تو میری زندگی میں ایک بہت بڑا علمی خلا ہمیشہ کیلئے موجود رہتاتھا۔ یہ کتاب مجھے بہت پہلے پڑھ لینی چاہئے تھی چاہے اس کے حصول کیلئے مجھے اسلام آباد تک کا سفر کرنا پڑتا۔ پروفیسر صاحب نے اپنے مضامین میں ہر اس فتنے کا ذکر کیا ہے جو اس وقت پاکستان کے وجود اور نظریے کو در پیش ہے۔ منکرین پاکستان کی بھی کئی اقسام ہیں اور پاکستان کے وجود کیلئے سب سے خطر ناک فتنہ وہ ہے جو پاکستان کے نظریاتی وجود سے انکار کرتا ہے۔ پاکستان کا جغرافیائی وجود دو قومی نظریے سے پھوٹا ہے اور دو قومی نظریے کی اساس اسلام ہے۔ فتح محمد ملک لکھتے ہیں کہ پاکستان کا نظریہ اور جغرافیہ یک جان اور دو قالب ہیں اگر پاکستان کا نظریاتی وجود قتل کر دیا جائے تو پاکستان کے جغرافیائی وجود کو بھی بر قرار نہیں رکھا جا سکتا ان کا یہ ارشاد بھی صد فیصد درست ہے کہ نظریہ پاکستان کی تردید اور پاکستان کی تخریب دونوں ہی سنگین اور ناقابل معافی جرم ہیں۔ فتح محمد ملک کہتے ہیں کہ تحریک پاکستان اور تصور پاکستان کے خلاف جتنی الزام تراشی اور دشنام طرازی قیام پاکستان کی جدو جہد کے دوران ہمارے مخالفین کیا کرتے تھے ۔ حیرت کی بات ہے کہ آج پاکستان میں بیٹھے ہوئے ہمارے دشمن بھی وہی الزامات دہرا رہے ہیں جو کانگرس کے پلیٹ فارم سے قیام پاکستان کو روکنے کیلئے عائد کیے جاتے تھے۔ جب پاکستان قائم نہیں ہوا تھا تو دو قومی نظریے کیخلاف ہندو قوم کے رہنما دلائل دیا کرتے تھے کہ اس بنیاد پر ہندوستان کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ اب پاکستان کے قیام کے بعد نظریہ پاکستان کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پاکستان کے کچھ بد بخت دشمن یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے قیام کے بعد میں نظریہ پاکستان ختم ہو گیا تھا ۔ یعنی پاکستان سے پہلے نظریہ پاکستان کی ضرورت تھی لیکن قیام پاکستان کے بعد نظریہ پاکستان کی ضرورت نہیں رہی۔ یہ بات تو ایسے ہے کہ جیسے کوئی یہ کہہ دے کہ ایک ہندو کو مسلمان ہونے کیلئے اسلام پر ایمان لانا ضروری تھا لیکن جب وہ مسلمان ہو چکے تو پھر اس کو اسلام کی ضرورت نہیں۔ کچھ لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ بنگلہ دیش بن جانے کے بعد تو نظریہ پاکستان منہدم ہو گیا ہے اب آپ لوگ کس نظریہ پاکستان کی بات کرتے ہیں ۔ یہ سوال اٹھانے والوں سے میں پوچھتا ہوں کہ بنگلہ دیش اس بنگال کا دوبارہ حصہ کیوں نہیں بن پایا جو ہندو بنگال انڈیا میں موجود ہے۔ بنگلہ دیش ، پاکستان سے ہماری سیاسی نا لائقیوں کی وجہ سے الگ ہوا لیکن وہ پاکستان سے الگ ہو کر آج بھی اپنے وجود سے دو قومی نظریے کی دائمی صداقت کا اعلان کر رہا ہے۔ کیوں کہ وہ 1947ء سے پہلے انڈیا کا حصہ تھا لیکن اب نہیں۔ انڈیا اپنی فوجی طاقت سے پاکستانی قوم میں پیدا ہو جانیوالے انتشار کی وجہ سے پاکستان کو توڑنے میں تو ضرور کامیاب ہو گیا تھا لیکن انڈیا کی فوجی طاقت بنگلہ دیش پر اپنا قبضہ بر قرار نہ رکھ سکی کیوں کہ دو قومی نظریہ آج بھی زندہ ہے۔(جاری)

ای پیپر دی نیشن