میں نے کہا تھا میں آﺅں گا میں آگیا ہوں نواز شریف! ویگن کہیں یا ٹانگہ پارٹی۔ بے شک اب موٹر سائیکل والے ,کچھ بھی ہو خوش رہو شیخ رشید جیتے رہو شیخ رشید، زندہ باد شیخ رشید آج راولپنڈی کے لوگوں کا سفر فخر سے بلند ہو گیا ہے۔ آپ سیاسی ورکر ہیں لوگوں کے دلوں میں رہتے ہیں اور واقعی بڑے لیڈر ہیں حقیقی عوامی راج کے لیے، پارلیمنٹ کا پول کھولنے کے لیے۔ 28 اکتوبر 2016 کا دن ہمیشہ کے لیے شیخ رشید کے نام رہے گا۔ آج وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ آپ صرف فرزند راولپنڈی ہی نہیں بلکہ واقعی فرزند پاکستان ہیں۔ آج ان لوگوں کی زبانیں بند ہو گئی ہیں جو کہتے تھے کہ شیخ رشید اب صرف میڈیا کی زینت رہ گیا ہے۔ آج لوگوں نے آنکھوں سے دیکھا کہ سیاسی ورکر جو کہتا ہے کر دکھاتا ہے۔ ٹی وی پر دیکھنا اور اپنی آنکھوں سے لال حویلی اور اس کے گرد و نواح کنٹینروں کا جمِ غفیر دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ ویڈیو پیغام سے عوام کو مطمئن کرنے کی خاطر آپ کا کوئی پیغام آ جائے گا۔ لیکن اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر۔ ڈنڈوں پتھروں اور گولیوں کی پرواہ کیے بغیر سینکڑوں پولیس والوں کے عین درمیان آ کر وعدے کی پاسداری جس کمال اور دلیری سے کی اس پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد۔ اگر عمران خان برانہ محسوس کریں تو وہ بھی اپنے دو تین لیڈروں کو اسی انداز میں شیخ رشید کے ساتھ بھجوا سکتے تھے لیکن بہرحال اس کے لیے ہمت بھی چاہئیے اور جگرا بھی۔ تاہم شیخ رشید کی کارکردگی مستقبل میں عمران خان کے ضرور کام آنی چاہئیے۔ کہتے ہیں جمہوریت کو خطرہ ہے۔ کون سی جمہوریت؟ جو کرکٹ ٹیم کے پش اپز سے گھبرا جاتی ہے۔ اور ممبران کمیٹی حواس باختہ ہو کر اس پر بھی پابندی لگانے کی تجاویز دے رہے ہیں۔ میاں صاحب۔ اللہ تعالیٰ نے جتنی اعلیٰ قسمت آپ کو دی شاید ہی کسی اور کو دی ہو۔ اگرآپ غریبوں، یتیموں، بے بسوں اور لاچاروں کے لیے حقیقی فلاحی منصوبے بناتے تو قوم تاحیات سرپر بٹھانے کو تیار تھی۔ کاش آپ نے تعلیم، صحت، فلاح و بہبود اور زراعت پر محنت کی ہوتی۔ کاش آپ نے اسی عظیم قائد کی پیروی کی ہوتی۔ بڑے بڑے محلات میں رہنا۔ عمدہ گاڑیاں، مہنگی گھڑیاں اور بادشاہی طور پر طریقوں نے نہ جانے کیا کر دیا آپ کے قول اور فعل میں تضاد آنا شروع ہو گیا۔ آپ تو کھانے میں بھی تین مختلف باورچیوں کے ہاتھوں آلو گوشت بنوا کر سب سے عمدہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ سنا ہے جمعرات کی شام تین بندے راولپنڈی گئے تھے۔ شکوہ ”ان“ کے بارے کیا کہ کم از کم کوئی تو لحاظ کر لیا ہوتا! خبر ہے آگے سے ”ان“ کے بارے میں ایسے انکشافات ہوئے کہ وہ اسی رات لاہور روانہ ہو گئے۔ آپ کے ساتھی تو نمازیں بخشوا نے گئے، اُلٹے روزے گلے پڑ گئے! میاں صاحب کلبوشن یادیو کا نام زبان سے نہ نکالتے تھے۔ آپ کوئٹہ گئے۔ کیا آپ کو معلوم نہ تھا کہ یہ کس کی کارستانیاں ہیں۔ اور پھر شلجموں سے مٹی جاڑ کر واپس آ گئے۔ حکومت کی آشیر باد سے محمود اچکزئی نے کیا کچھ نہ کہا اور وہ بھی پارلیمنٹ کے فلور پر۔ آپ اس کو چھبیاں ڈالتے تھے۔ حکومت کی حالتِ زار دیکھ کر مجھے وہ سردار یاد آ رہا ہے، جو ایک دن گھر کے باہر پڑے کیلے سے پھسل کر گرا۔ اگلے دن پھر گرا۔ جب تیسرے دن دروازے نکلا تو پھر کیلے کا چھلکا سامنے دیکھ کر بولا۔ ” آج فِر ڈھینا پوے گا“ میاں صاحب دو دن سے راولپنڈی اسلام آباد میں تعلیمی ادارے بند۔ میٹرو بس بند اور اب پشاور اسلام آباد موٹروے بھی بند۔ کیا یہ جمہوریت ہے؟ ملکی خزانے کی حالت خراب۔ ہر چیز گروی رکھ کر قرض لے لیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کی نمائندہ نے یہاں آ کر جو کچھ کہا۔ کیا وہ آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ سوشل میڈیا تو یہاں تک کہتا ہے کہ شاید اس خاتون نے پی ٹی آئی جوائن کر لی ہے
آپ ہی اپنی اداﺅں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
شاید بہت دیر ہو چکی ہے۔ پانی پلوں سے بہت حد تک بہہ چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مصیبت زدہ اور گھبرائے لوگوں کو عمران خان کی شکل میں ایک مسیحا نظر آ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ آپ کی پسپائی دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج جو عزت اور شہرت اللہ کریم نے شیخ رشید کو بخشی ہے وہ کم خوش نصیبوں کو ملتی ہے۔ وجہ کیا ہے؟ بات بڑی سیدھی ہے کہ آپ کے اس دور میں شیخ رشید روزِ اول سے غریبوں کی مشکلات کا رونا رو رہاہے۔ ان کی تعلیم، صحت اور بنیادی ضروریات کی بات کرتا ہے۔ اور یہی ان بے بسوں کے دل کی آواز ہے۔ ہاں۔ قوم کی حالت انشاءاللہ ضرور بدلے گی، مگر؟
اب بھی مشورہ یہ ہے کہ پانامہ لیکس پر قوم کو سچائی بتائیں، قوم کی دولت اُس کے حوالے کرا ئیں، دل کی گہرائیوں سے اِرادہ کریں کہ اداروں کو مضبوط کرنا ہے، مرد شماری کرانی ہے۔ ملک کی حالت زار کو بدلانے کے لیے سخت ترین فیصلے کرنے ہیں، فوج کو مضبوط اور توانا کرنا ہے۔اُس کے سربراہ بارے وقت اور حالات کے مطابق درست فیصلہ کرنا ہے۔ ہر قدم قومی سلامتی اور وطن کی مضبوطی کی حاطر اُٹھانا ہے، میرٹ پر شفاف فیصلے کرنے ہیں۔ کابینہ میںردوبدل کر کے صحیح ذمہ دارورں کو آگے لانا ہے۔ ملک میں جمہوریت کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے سے گریز نہ کرنا ہے انصاف کے لیے ہر مشکل قدم اُٹھانا ہے تاکہ عوام کو اُن کی دہلیز پر انصاف مل سکے۔ خاندانی سیاست ختم کر کے رول آف لاءکو آگے بڑھانا ہے۔ معیشت کو مضبوط کرنا ہے۔ قرضوں کا بوجھ کم سے کم کرنے کی کوشش کرنا ہے۔اور دنیا بھر میں پاکستان کاوقار بلند سے بلند کرنا ہے۔ فیصلہ بہر حال آپ کا....!