شیخ رشید پولیس کے ہتھے نہ چڑھ سکے۔

Oct 30, 2016

راولپنڈی میں گزشتہ روز یومِ شیخ اس دھوم سے منایا گیا کہ پوری انتظامیہ اور پولیس ایک طرف تھی، شیخ رشید دوسری طرف ۔ پوری قوم نماز جمعہ کے بعد ٹی وی لگا کر بیٹھی کہ دیکھیں کیا تماشہ ہوتا ہے، کمیٹی چوک میں لال حویلی کا شیخ کونسی بلا کے ساتھ نمودار ہوتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے شہر کو تہہ و بالا کرتا ہے۔ مگر افسوس شیخ جی مفرور قیدی کی طرح چھپتے چھپاتے کبھی پیدل، کبھی موٹر سائیکل پر اپنے 4 عدد مصاحبین کے ساتھ جیمز بانڈ بنتے دکھائی دئیے اور گلی میں موٹر سائیکل کھڑی کر کے دوڑتے ہانپتے کانپتے درجن بھر افراد اور اتنے ہی پولیس والوں کے سامنے میڈیا کی گاڑی پر چڑھ کر سانسیں درست کرنے کی کوشش میں صرف چند جملے ہی بول سکے اور اپنا غیر ملکی قیمتی سگار خدام کی مدد سے سلگا کر پھر موٹر سائیکل پر بیٹھ کر فرار ہو گئے۔ بس اتنے سے ڈرامہ کیلئے راولپنڈی انتظامیہ نے جو سٹیج تیار کیا اس پر انہیں شاباش دینی چاہئے کہ انہوں نے اسلام آباد والے سکندر کی طرح شیخ رشید کو بھی ون مین آرمی بنا دیا۔ جتنے کنٹینرز لال حویلی کے باہر رکھے اتنے تو پولیس والے ہی کافی تھے شیخ جی کی 4 رکنی جلوسی پر قابو پانے کیلئے۔ شاید پرانے زائد المیعاد آنسو گیس شیلوں کا ذخیرہ ختم کرنا مقصود تھا اس لئے بے تحاشہ کمیٹی چوک کو دھواں دھار بنا دیا گیا حالانکہ اس کی قطعاً ضرورت نہیں تھی، وہاں بندے بیچارے تھے ہی کتنے جن کیلئے اس چاند ماری کی ضرورت پڑی۔ یہ تو سراسر شیخ جی کو شیخ الشیوخ قسم کی کوئی چیز بنانے کی سازش تھی جس میں راولپنڈی کی انتظامیہ بہرحال کامیاب رہی۔ اب خدا جانے شیخ جی کی راتیں کہاں بسر ہوں گی بنی گالہ تو بند ہے لال حویلی جانے کا شیخ جی رسک نہیں لے سکتے۔
٭…٭…٭…٭
چینی کمپنی کا گدھوں میں سرمایہ کاری کیلئے خیبر پی کے حکومت سے رابطہ!
چینی کمپنی نے پوری چھان بین اور تحقیقات کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا ہو گا۔ اب چینی سرمایہ کار پشاور، کرک، بنوں، چارسدہ، مردان وغیرہ میں گدھوں کی خرید و فروخت کرنیوالے بڑے بڑے تاجروں سے مذاکرات کا ڈول ڈالیں گے، خیبر پی کے سے گدھے چین منگوائیں گے۔ اس پر تو دوسرے صوبے شاید رشک و حسد سے جل بُھن رہے ہوں گے۔ اب کہیں وزیر اعلیٰ خیبر پی کے اس پر بھی اعتراض نہ کر بیٹھیں کہ یہ سراسر گدھا پروری ہے، اورنج ٹرین، تھرمل پاور اور صنعتیں لگانے کے معاہدے تو چین والے پنجاب سے کرتے پھرتے ہیں، رہا سی پیک منصوبہ تو اس میں بھی مغربی روٹ پر پہلے ہی پرویز خٹک کافی برس رہے ہیں اب اس گدھا فراہمی کے معاہدے پر وہ کیا فرماتے ہیں جلد پتہ چل جائیگا۔ ویسے اس سرمایہ کاری کے فیصلے سے تو خر فروشی کا کاروبار کرنے والوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہو گی کہ اب انکے خر کاشغر سے لیکر یارقند تک کے بازاروں میں فروخت ہوں گے۔ اب یہ نہ ان کا مسئلہ ہے نہ ہمارا کہ یہ بحالتِ زندہ فروخت ہونگے یا کھالیں اتارنے کے بعد انہیں قصابوں کی دکانوں پر فروخت کیلئے پیش کیا جائیگا۔ ویسے ان چینی سرمایہ کاروں کو ذرا چھان پھٹک کر خریداری کرنا ہو گی کہیں خر کے بھیس میں ہمارے غیر قانونی مہاجر بھائی چین کو یونان یا اٹلی سمجھ کر ہجرت نہ کرنے لگ جائیں، بدنامی تو اس میں ہماری ہی ہو گی کیونکہ غیر قانونی دھندوں میں پہلے ہی ہم کافی نیک نام ہیں۔
٭…٭…٭…٭
بلاول زرداری کی جناح ہسپتال میں ڈاکٹر عاصم کی عیادت!
جی ہاں بلاول جی اربوں کی کرپشن میں ملوث ڈاکٹر عاصم جیسے مظلوم بیمار کی عیادت نہیں کرینگے تو اور کون کریگا؟ آخر تعلقات اور ادب آداب بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ جب زرداری صاحب قید میں تھے تو یہی ڈاکٹر عاصم ہی تو تھے جنہوں نے ساری پابندیوں اور رکاوٹوں کے باوجود کھلے دل سے نہیں کھلی بانہوں سے اپنے جدید ہسپتال میں ان کا استقبال کیا، انہیں داخل کیا، بیماری کیا تھی اس کا کسی کو پتہ نہیں، ان کا ہر ممکن جی خوش رکھا تاکہ وہ جلد از جلد صحت یاب ہوں۔ انکے اس اعلیٰ سہولتوں سے آراستہ ہسپتال کا سب سے مہنگا وارڈ زرداری جی کیلئے مختص رہا اور وہ عرصہ دراز تک اس میزبانی اور علاج سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ اب جب وہ خود بیمار ہیں، زیر حراست ہیں اور سرکاری ہسپتال میں زیر علاج ہیں ظاہر ہے نجی ہسپتال کی طرح یہاں آرام دہ سہولتیں تو حاصل نہیں ہوںگی اس لئے انکی طبیعت جو ایسے ماحول کی عادی نہیں کچھ زیادہ ہی ناساز ہے۔ آصف زرداری نہیں تو اب بلاول جی نے لگتا ہے انہی کا حکم ملنے کے بعد ہی عیادت کا ارادہ کیا ہو گا کیونکہ ابو جی اور پھوپھو کی مرضی کے بغیر تو وہ اپنے ماتھے پر پڑی لٹ بھی سنوار نہیں سکتے ورنہ ڈاکٹر عاصم تو کب کے بیمار ہیں۔ اب عیادت کے بعد بلاول جی کے دل میں میئر کراچی اور ڈاکٹر پٹیل کا درد بھی جاگا ہے اور وہ انہیں مظلوم کہہ رہے ہیں جن کو نواز حکومت نے بنام دہشت گردی کیس پکڑ رکھا ہے۔
٭…٭…٭…٭
پٹرول، ڈیزل اور مٹی کا تیل مہنگا کرنے کی سفارش!
وزارت پٹرولیم کی طرف سے ایسی سمریاں عام طور پر حکومت کو ایسے وقت ارسال کی جاتی ہیں جب حکومت کو کسی دبائو سے نکالنا مقصود ہو کیونکہ حکومت فوراً عوام کے مفاد میں غریبوں کی حالت زار کے پیش نظر ایسی عوام دشمن سمری رد کرتی ہے اور پرانی قیمتوں کو بحال رکھنے کا اعلان کرتی ہے جو خیر سے پہلے ہی کافی منافع بخش ہوتی ہیں اور حکومت اس سے کافی منافع کما رہی ہوتی ہے۔ اب عوام یہ ڈرامہ بازی بخوبی جان چکے ہیں اور ایسی سمریوں کی حقیقت سے آگاہ ہو چکے ہیں یہ عوام کو ریلیف پہنچانے کی نہیں بے وقوف بنانے کی کوشش ہوتی ہے تاکہ عوام اس پر خوش ہوں کہ شکر ہے قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوا، اگر عوام سے حکومت کو اتنی ہی محبت ہے تو ذرا آٹا، دال، چاول، چینی، گھی پر بھی یہی محبت بھری نظریں ڈالے۔ یوٹیلٹی بلز کم ہونگے تو عوام کا پارہ بھی نیچے آئیگا پھر کوئی فلم چلانے کی ضرورت محسوس نہیں ہو گی مگر نجانے کیوں اسطرف کسی کی نظر نہیں اٹھتی؟ یہ تو بقول غالب ؎
جانتا ہوں ثواب زہد وطاعت
پر طبیعت ادھر نہیں جاتی
والی بات ہے۔ ویسے ہر اچھے کام کیلئے واہ واہ تو ضروری ہے اس لئے فی الحال عوام انتظار میں ہیں کب قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے کا بیان جاری ہو اور انہیں واہ واہ کرنے کا موقع ملے۔

مزیدخبریں