انعامی سکیمیں

پچھلے دنوں کچھ ایسے واقعات زیر مشاہدہ آئے جنہوں نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا لہذا میں آپ کو بھی اس سلسلے میں اپنی تشویش میں شامل کرتی ہوں۔ ہواکچھ یوں کہ میرے پڑوس میں ایک نہایت ہی با عزت فیملی قیام پذیر ہے۔ وہاں سے خاتون خانہ کا فون آیا کہ انہیں کچھ رقم ادھار چاہیے۔ آدھے گھنٹے کے اندر اندر کیونکہ ان کے بڑے بیٹے کو ایک نہایت ہی ناگزیر ضرورت آپڑی ہے جسکی عمر تقریبا بیس اکیس سال کے لگ بھگ ہوگی۔خیر فوری طو رپر رقم کا انتظام کرکے انہیں بھجوائی، ضرورت پوچھنا مناسب نہ لگالیکن دل میں فکر ضرور تھی کہ اچانک اتنی رقم کی کیا ضرورت آپڑی کہ انہیں ادھار لینا پڑا حالانکہ خود بھی اچھے خاصے کھاتے پیتے ہیں، بہرحال ایک دو دن بعد گتھی کھل گئی جب صاحبِ خانہ شکریہ کے ساتھ پیسے لوٹا گئے لیکن وہ کچھ پریشان بھی تھے جب ان سے پریشانی کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایاکہ انکے بیٹے کو کسی صاحب کا فون آیا تھا کہ آپ کی نئی کار(کافی اچھے ماڈل کی) انعامی سکیم میں نکل آئی ہے لیکن اسکے حصول کیلئے پہلے آپکو کچھ رقم جمع کرانا ہو گی۔ صاحب ِخانہ چونکہ ایک سخت گیر آدمی ہیں لہذا بیٹے نے ماں کو اعتماد میں لیکر آگے پیچھے سے رقم ادھار لی اور بتائے گئے اکائونٹ میں رقم جمع کرائی۔ جب احساس ہوا کہ یہ سب تو فراڈ تھا تب جر أت کرکے والد صاحب کو تمام معاملے سے آگاہ کیا وہ بچارے اپنا سرپیٹ کررہ گئے بیوی ، بچوں کو برا بھلا کہا اور سب کی رقم ان کو لوٹائی لیکن اصل تشویش کی بات یہ تھی کہ بچوںکو وہ جو رزق حلال سے پروان چڑھا رہے ہیں اچھے تعلیمی اداروں سے انکو پڑھا رہے ہیں گویا کہ ہر طرح سے انکی تعلیم و تربیت پر توجہ دے رہے ہیں لیکن بچوں میں صبروقناعت پیدا کرنے میں ناکام رہے تبھی تو بچے چور راستے یا Short Cut کی تلاش میں ہیں کہ کسی طرح انکی خواہشات کا حصول ممکن ہو اس سلسلے میں وہ بچے قصوروار ہیں یا وہ لوگ جو لوگوں میں اس قسم کی خواہشات ابھارنے کا موجب بن رہے ہیں۔اسی طرح کا دوسرا واقعہ بھی اتفاق سے انہی دنوں پیش آیا جب صبح سویرے میرے گھر سے متصل چھوٹے سے کوارٹر میں رہنے والی خاتون کا فون آیا کہ باجی آپکے گھر ہمارا ایک لاکھ کا چیک بذریعہ کورئیر آیا ہے وہ آپ ہمیں پہنچا دیں میں اس سے لا علم تھی لہذا باہر چوکیدار سے پوچھا ا س نے بتایا کہ ہاں ایسا لفافہ بذریعہ کورئیر آیا تو ہے لیکن یہ نہیں پتہ اس میں کیا ہے بہر حال میں نے خاتون کو بلایا لفافہ ان کے حوالے کیا۔انہوں نے اسے میرے سامنے ہی چاک کیا اور ایک لاکھ کا چیک مجھے فخر سے دکھاتے ہوئے بتانے لگیں کہ یہ انکے بیٹے اور بیٹی کی کاوش ہے جن کی عمر بمشکل 15سے 17 سال کے درمیان ہوگی۔ انہوں نے چپس کھا کھا کے اسکے لفافے جمع کئے اور ان پر درج نمبر ایس ایم ایس کر کے یہ انعام جیتا ہے میں سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ یہ ہم اپنے بچوںکو کس طرف لے جا رہے ہیں۔ انکے اندر کس قسم کا حرص اور لالچ پیدا کررہے ہیں کہ مادی چیزوں کے حصول کیلئے وہ غلط سمت میں سرتوڑ کوشش میں لگ جاتے ہیں۔بچوں کی وہ عمر جس میں انہیں زندگی کی سچی اور کھری حقیقتوں سے آگاہ کرنا چاہیے انہیںمحنت اور صبر کی عظمت سے آگاہ ہونا چاہیے کہ یہی وہ اصل راستہ ہے جس پر چل کر وہ زندگی کی مادی ضروریات او رآسائشیں حاصل کر سکتے ہیں لیکن افسوس کاروباری ذہنیت کے لوگوں نے اپنے کاروباری فوائد کیلئے لوگوں کی غربت ،ambitiousness اور مجبوریوں سے کھیلنا شروع کردیا ہے اور انکو مادی فوائد کے حصول کے چکر میں لالچی اورحریص بنا رہے ہیں۔ کہیں ٹیلی وژن میں اس قسم کے پروگرام دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں لوگ انعام حاصل کرنے کے چکر میں اپنی بے عزتی کروا رہے ہوتے ہیں۔اسلام نے جوئے سے اس لئے منع فرمایا کہ انسان کا نفس لالچی اور حریص نہ بن جائے، سود سے اجتناب کرنے کے حکم میں بھی یہی حکمت پوشیدہ ہے۔ لیکن ہم اپنے معاشرے میں یہ چیز روز بروز بڑھتی ہوئی دیکھ رہے ہیں اور لوگوں کے اندر بڑھتے ہوئے اس رحجان کا فائدہ اٹھا کر بہت سے ایسے لوگ بھی میدان میں آگئے ہیں جو لوگوں کو کھلم کھلا دھوکہ دے رہے ہیںبلکہ انہیں لوٹ رہے ہیں اب ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کے با اختیار اور باشعور لوگ اس بڑھتے ہوئے منفی رحجان کی حوصلہ شکنی کریں اور خاص طور پر نئی نسل کو اس موذی برائی کا شکار ہونے سے بچائیں ۔

شازیہ ارم....بنیادی باتیں

شازیہ ارم....بنیادی باتیں

ای پیپر دی نیشن