پاکستان کا سیاسی منظر نامہ ایسی صورتحال سے دوچار ہے جس سے سیاسی جماعتوں کے قائدین اور عوام دونوں ہی تذبذب کا شکار ہیں۔ایک نکتہ نظر یہ ہے کہ عمران خان پھر کسی "سکرپٹ" کا کردار بن کر نوزائیدہ جمہوریت کی کمر میں خنجر گھونپنے کی کوشش میں ہیں تو دوسرا نکتہ نظر ہے کہ یہ صورتحال ن لیگ کی حکومت کا زمینی حقائق کا ادراک نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئی۔وجوہات خواہ کچھ بھی ہوں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارا سیاسی نظام منفرد بحران کا شکار ہے۔ حکومت ابھی تک اس بحران سے مکمل طور پر تو نہ نکل سکی ہے لیکن بہت حد تک حکومت کو سنبھالا مل گیا ہے۔ حالیہ منظر نامے کا آغاز عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنوں، وزیر اعظم کے استعفیٰ کے مطالبے اور نظام کو لپیٹنے کی تحریک سے شروع ہوا۔ واقعہ ماڈل ٹائون کے معاملے کو دانشمندی سے حل نہ کرنے اور عمران خان کے عزائم کو بر وقت نہ پرکھنے کی وجہ سے معاملات حکومتی کنٹرول سے باہر ہو گئے۔عمران خان اور طاہر القادری کے اعصاب شکن دھرنوں کا زمانہ تو جیسے تیسے گزر گیا لیکن پانامہ لیکس کے سکینڈل نے نواز حکومت کو خاصی مشکل صورتحال سے دوچار کر دیا۔ تحریک انصاف نے اس معاملے کو انتہائی کامیاب سیاسی دائو کے طورپر استعمال کیا۔پیپلز پارٹی اور کچھ دوسری جماعتوں نے ماضی کا سکور برابر کرنے کیلئے اپنا وزن بھی تحریک انصاف کے پلڑے میں ڈال دیا لیکن جب ان کو یہ احساس ہوا کہ پانامہ لیکس کا سارا" پھل "تحریک انصاف ہی نہ لے جائے تو انہوں نے اس معاملے پر آئیں ، بائیں اورشائیں کرنا شروع کر دی۔ بدقسمتی سے عمران خان دور اندیشی کی بجائے یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ ا س معاملے میں نواز شریف کو اکیلے ہی گرفت میں لے لیں گے اس حکمت عملی میں ان کی سیاسی چال کامیاب نہ رہی اور وہ اپنے ہٹ دھرم مزاج کے باعث سیاسی منظر نامے میں تنہا ہو گئے۔ انہوں نے کوشش کی کہ طاہر القادری انکے ساتھ آ جائیں لیکن طاہر القادری صاحب ماضی کے تجربے کے پیش نظر اپنی سیاسی طاقت عمران خان کیلئے استعمال نہیں کرینگے۔
عمران خان شیخ رشید کے چنگل میں پھنس گئے اور شیخ صاحب نے بھی کمال مہارت سے اپنی" ایک رکنی" سیاسی جماعت کے فن کا خوب مظاہرہ کیا خاص طور پر جمعہ کے دن تو وہ پاکستانی سیاستدانوں کے ہیرو بن کر سامنے آئے ۔دوسری طرف عمران خان کے اس سیاسی فیصلے نے کہ وہ اسلام آباد کو لاک ڈائون کر لیں گے انہیںپوائنٹ آف نو رٹرن پر لا کھڑا کیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بھی عمران خان کو ان ہی کی زبان سے نکلے الفاظ سے باندھ کر ایک ایسا فیصلہ دیا کہ "خود اپنے ہی دام میں صیاد آ گیا"ن لیگ کی حکومت نے دفعہ144 کو SELECTIVEانداز میں اس طرح استعمال کیا کہ عمران خان کی مشکیں کس دیں۔ 28اکتوبر تو گزر گیا۔پہلے رائونڈ میں حکومت کا پلڑا بھاری رہا ہے لیکن اب دوسرا رائونڈ یکم نومبر(پیر)تک ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس مرحلے پر حکومت کیا حکمت عملی اختیارکرتی ہے جبکہ تیسرا رائونڈ دو نومبر منگل کے دن ہو گا۔ یکم نومبر کی رات اور 2نومبر کا دن طے کرے گا کہ تحریک انصاف کا سیاسی مستقبل کیا روپ اختیار کرتا ہے۔ یہ بحث اپنی جگہ بڑی اہم لیکن عوام اور تجزیہ نگار اس ساری صورتحال کو کئی اور پہلوئوں سے بھی دیکھ رہے ہیں اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ عمران خان سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کسی اور کی گیم کھیل رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ اپنے مہروں کو مخصوص مقاصد کیلئے استعمال کرتی ہے کبھی حالات کی لگام کسی سیاستدان کے ہاتھ میں ہمیشہ نہیں رہنے دیتی۔ ایک دور میں نواز شریف صاحب انکے فرنٹ مین تھے اسی طرح مذہبی جماعتیں اور ایم کیو ایم انکی نمائندہ رہی ، طاہر القادری اور عمران خان بقول خورشید شاہ"آشا اور پاشا" کی آس میں رہے۔ عمران خان اب بھی "انگلیـ"کے منتظر ہیں۔عمران خان کو یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ پاکستانی نوجوانوں کی بڑی تعداد ان کو رول ماڈل بنائے ہوئے ہے انہوں نے ان نوجوانوں کے خوابوں کو یکجا کرنے کی بجائے اسے بکھیرنے کا کام کیا ہے۔ صوبہ سرحد میں انہیں اقتدار ملا ہے اگر وہ اس صوبے کو مثالی بنا دیتے تو لوگ شہباز شریف کا نام بھی نہ لیتے انہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستانی عوام دلی طور پر اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو عدالتی فیصلے کے بعد پھانسی دی گئی لیکن عوام حقیقت احوال سے واقف تھے اس لیے انہوں نے بھٹو کی پارٹی کو دومرتبہ حکمرانی دی۔ نواز شریف اسٹیبلشمنٹ نے جلاوطنی پر مجبور کیا ۔آئین میں ترمیم کر کے بھی راستہ روکا لیکن وہ بھر بھی جیت گئے اور اب وہ تیسری باروزیر اعظم ہیں۔ عوام کو اس امر کا ادراک ہے کہ اکثر مذہبی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر چلتی ہیںاس لئے انہیں عوام نے بھی حق حکمرانی نہیں دیا۔ 18ویں ترمیم نے اسٹیبلشمنٹ کا راستہ روکا ہوا ہے اس لیے سیاسی کھیل جاری ہے۔ عمران خان اور نواز شریف دونوں کو اس امر کا خیال رکھنا چاہئیے کہ اگر اکھاڑہ ہے تو کھلاڑی میدان میں اتر سکیں گے۔ ایک طرف تو عمران خان کواپنی ہٹ دھرمی چھوڑنی ہو گی تو دوسری طرف نواز شریف کو CRONY CAPITALISMکی پالیسی چھوڑ کر ترکی کے لیڈرطیب اردوان کی پالیسی اپناتے ہوئے عوام کی صحت اور تعلیم کے جانب توجہ دینی ہو گی یا بھر فیڈرل کاسترو کی صحت پالیسی کو سامنے رکھتے ہوئے PREVENTIVE MEASURES کی پالیسی اپنانی ہو گی۔ میاں صاحب اگرملک میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور زچہ بچہ کی صحت کو میٹرو اور موٹر وے پر ترجیح دیں تو وہ آئندہ بھی حق حکمرانی حاصل کر سکیں گے۔ اسی طرح عمران خان "پیچیدہ اور لمبی گیم"چھوڑ کر صوبہ سرحد کی جانب توجہ دیںتو ان کا سیاسی مستقبل بچ جائے گا۔