حیدرآباد (این این آئی) چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سجاد علی شاہ نے کہا ہے کہ شراب پر پابندی لگاکر کوئی جذباتی فیصلہ نہیں کیا۔ ہمارا آئین اور قانون صرف غیر مسلموں کو ان کے مذہبی تہواروں میں شراب پینے کی اجازت دیتا ہے۔ ہندو برادری تو کہتی ہے ہمارا مذہب کہیں شراب کی اجازت نہیں دیتا۔ حکومت سندھ شراب کے کمائی نہیں کھاتی لیکن اس معاملے پر توجہ بھی نہیں دیتی جس کے باعث جگہ جگہ شراب کی دکانیں کھل گئی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے حیدرآباد میں سندھ ہائی کورٹ ایسوسی ایشن کے سالانہ عشایئے سے خطاب اور میڈیا سے بات چیت میں کیا۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ قانون کا اپنا طریقہ کار مقرر ہے اس پر چلتے ہوئے پھانسی بھی ہو تو کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہے۔ جے آئی ٹیز میں سینئیر افسر شامل ہوتے ہیں اس لئے تصور کیا جاتا ہے کہ اے ایس آئی والی رپورٹ نہیں ہو گی۔جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ جے آئی ٹیز میں خفیہ اداروں کی ثبوت کے ساتھ ایسی رپورٹس بھی ہوتی ہیں جن سے انکار نہیں ہو سکتا۔ میں نہیں سمجھتا کہ حکومت سندھ لوگوں کو شراب پلا کر اس کی کمائی کھانا چاہتی ہے۔ شراب خانوں پر پابندی کے فیصلے کے وقت سکھ ، عیسائی اور ہندو برادری کا کہنا تھا کہ مسلمانوں نے اگر شراب پینی ہے تو پھر وہ اپنے نام سے پئیں۔ سندھ میں اس وقت 700 ججز کام کررہے ہیں جو تاریخ کے لحاظ سے ایک ریکارڈ ہے عدلیہ میں تطہیر کے لئے ججز کی تعیناتی اور برطرفی کا سلسلہ جاری ہے اور اب تک 25 ججز کو جبری ریٹائر اور برطرف جبکہ ماتحت عدلیہ میں سندھ کی تاریخ میں سب سے زیادہ 149 ججز کو بھرتی کیا گیا ہے۔ بحیثیت چیف جسٹس تعیناتی کے وقت 1 لاکھ 37 ہزار مقدمات زیر التوا تھے اور اس دوران مزید 2 لاکھ کیسز سامنے آئے لیکن موجودہ وقت میں صرف 1 لاکھ 20 ہزار کیسز زیرالتوا ہیں۔انہوں نے کہاکہ انصاف کی فراہمی ہمارا نصب العین ہے جس کے لئے معیار پر پورا اترنے والے مزدوروں، چائے بیچنے والوں اور سبزی فروشوں کے بچوں کو بھی جج منتخب کیا گیا کیوں کہ مجھے یقین ہے کہ ان نئی بھرتیوں کے نتیجے میں سسٹم میں بہترین تبدیلی آئے گی۔