”شہر گلاسگو، شہر وفا ہے!“

اس بار میں لندن میں صرف دو گھرانوں کے افراد سے جا کر مل سکا۔ اپنے مرحوم دوست بریگیڈئیر (ر) پیر سید افضال حسین شاہ کی تعزیت کیلئے ان کی بیٹی آرزو حسین، داماد سہیل حسین اور بہنوئی سید سجاد حسین سے ملاقات کیلئے اور ”فاتح سلہت“ مرحوم جناب محمد علی کے چچا زاد جناب مشرف مشتاق علی اور ان کی بیگم محترمہ سلینہ علی سے۔ میری مزاج پرسی کیلئے لندن، بریڈ فورڈ، برمنگھم اور مانچسٹر سے میرے رشتہ دار اور دوست اس لحاظ سے میرے دونوں بیٹوں انتصار علی چوہان اور انتظار علی چوہان کے گھر میرے لئے گوشئہ عافیت تو تھے لیکن میں دنیا داری سے آزاد نہیں تھا۔
لندن میں انڈر گراﺅنڈ اور اوورگراﺅنڈ ٹرین کا ایک سٹیشن ہے۔ ”Waterloo“ اس کے نزدیک پل کے نیچے پرانی کتابوں کے ”Stalls“ ہیں۔ وہاں کبھی کبھی بہت ہی نادر کتابیں مل جاتی ہیں۔ اس بار مجھے وہاں جا کر قدیم دور کے دو شاعر یاد آئے جو بینائی سے مرحوم تھے۔ 700 قبل از مسیح کا یونانی شاعر ”Homer“ اور ہندوﺅں کے اوتار ”بھگوان کرشن“ کا بھگت سورداس۔
مر کی رزمیہ نظموں Oddyseey اور Ilaid کے اردو ترجمے اور سورداس کی ہندی زبان میں شائع ہونے والی ”ساگر“ میں نے کئی سال پہلے لاہور میں پرانی کتابوں کی مارکیٹ سے خریدی تھی۔
کتابیں پڑھنے کیلئے آنکھوں کی (بینائی) ضروری ہے۔ نابینا خواتین و حضرات کے لئے 1856ءمیں فرانسیسی معلم ”Braille“ نے ابھرے ہوئے، حروف، الفاظ اور نقطوں سے تحریر و طباعت کا ایک سسٹم تیر کیا تھا، جسے اس کے نام پر ”بریل سسٹم“ تیار کہا جاتا ہے۔ ٹیلی فون سننے کیلئے بھی آنکھوں کی روشنی ضروری نہیں بلکہ قوت سماعت کی ضرورت ہوتی ہے۔ دور دراز بسنے والے اپنے پیاروں سے ٹیلی فون پر بات کرنے میں کتنی راحت ہوتی ہے؟
میرے ایک بیٹے اور ایک بیٹی نے حج کے دوران اور تین بیٹوں اور دو بیٹیوں نے عمرے کے موقع پر مجھ سے ٹیلی فون پر میرے لئے کی گئی دعاوں کا بتایا تو مجھے خوشی ہوئی۔ سید شاہد رشید گزشتہ سال عمرے پر اور برادرم سعید آسی اور میرے ہم زلف ملک محمد رفیق اعوان اس سال اور میری خواہر نسبتی شاہدہ اعوان حج کی سعادت حاصل کرنے کیلئے گئے اس دوران جب بھی انہوں نے میرے لئے اپنی دعاﺅں کا تذکرہ کیا تو مجھے احساس ہوا کہ ان کی گفتگو بھی میرے لئے دعاﺅں کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ٹیلی فون بھی بڑی نعمت ہے اور ”Skype“ تو اس سے بھی بڑی نعمت ۔ جب میں لاہور یا اسلام آباد میں رہتے ہوئے امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور سعودی عرب میں مقیم اپنے بیٹوں، بیٹیوں اور ان کے اہل و عیال کے ساتھ ان کی متحرک تصویروں کے ساتھ بات کرتا ہوں تو باوجود اس کے کہ مجھے نہیں معلوم کہ ”Skype“ ایجاد کرنے والے سائنسدان کا مذہب کیا تھا؟ میں اس کیلئے خلوص دل سے دعائیں کرتا ہوں۔
میں سرگودھا میں تھا تو لاہور میرے خوابوں کا شہر تھا۔ (اب بھی ہے) پاکستان کے دوسرے شہروں کی نسبت مجھے سرگودھا، لاہور اور اسلام آباد زیادہ پسند ہیں۔ میں نے دنیا کے کئی خوبصورت شہر دیکھے ہیں لیکن شہر تو.... اپنے مکینوں سے پہچانے جاتے ہیں۔ میں پہلی بار ستمبر 1981ءمیں گلاسگو آیا۔ میں سرکاری دورے پر تھا۔ قونصل جنرل ولی محمد خان نے مجھے ائرپورٹ پر ”Receive“ کیا اور ہوٹل میں میرا سامان رکھوا کر وہ مجھے قونصلیٹ لے آئے۔ قونصلیٹ میں مجھے پاک پنجاب کے ضلع تلہ گنگ کے دورہ افتادہ گاﺅں ”ڈھلی“ کے ملک غلام ربانی سے ملوایا جو ان دنوں ”بابائے گلاسکو“ کہلاتے تھے۔ ”بابائے گلاسکو“ نے مجھے قونصل جنرل صاحب سے ہتھیا لیا اور یہ کہہ کر کہ ”اثر چوہان جی! گلاسکو دیکھنا اے تے میرے نال چلو! میں تہانوں اپنے لوکاں نال ملاناں۔ گلاسکوں تہانوں لہور ای لگے گا“ ”بابائے گلاسگو“ نے جو کئی سال پہلے ”بابائے امن“ کہلا رہے ہیں مجھے گلاسگو دکھایا۔ گلاسکو میں پاک پنجاب کے مختلف شہروں کہ دیہات کے لوگ آباد ہیں۔ گلاسگو آیا تو مجھے گلاسگو، لاہور کی طرح دکھائی دیا۔ بابائے امن نے اس وقت سے مجھے اپنے حصار میں قید کر رکھا ہے۔ منیر نیازی نے کسی اور موضوع پر کہا تھا....
”آئینہ اب جدا نہیں کرتا
قید میں ہوں، رہا نہیں کرتا“
”بابائے امن“ کی جڑیں پاکستان میں ہیں۔ 22 فروری 2014ءکو انہیں ڈاکٹر مجید نظامی صاحب نے ”نظریہ پاکستان فورم برطانیہ کا صدر مقرر کیا تھا۔ 23 مارچ 2016ءکو لاہور میں منعقدہ ایک تقریب میں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے تحریک پاکستان میں خدمات انجام دینے پر موضع ڈھلی کے ملک حاکم خان کا گولڈ میڈل ان کے بیٹے (بابائے امن) کے گلے میں ڈالا اور اسی تقریب میں میرے دو دوستوں ”The Nation“ کے ایڈیٹر سید سلیم بخاری اور ”نوائے وقت“ میں میرے سینئر ساتھی سعید آسی کے گلے میں ان کے والد صاحبان (سرگودھا کے) سید مختار حسین شاہ بخاری اور (پاک پتن شریف) کے میاں محمد اکرم کے گولڈ میڈلز ڈالے۔
گلاسکو کے اصل باشندے ”Scottish“ ہمارے پٹھانوں کی طرح ہیں لیکن انگریزوں نے چالاکی سے اپنے ساتھ ملا تھا۔ گلاسگو سکاٹ لینڈ میں ہے اور وہاں انگلینڈ سے علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے۔ گلاسگو میں کشمیری بھی کافی تعداد میں ہیں۔ پنجابی سب سے زیادہ ہیں۔ میں 4 ستمبر 2013ءکو گلاسگو میں تھا اور میری درخواست پر ڈاکٹر مجید نظامی صاحب نے میرے ذریعے اہل گلاسکو کے نام ایک پیغام بھی بھجوایا تھا۔ ”بابائے امن“ کو میں نے جناب نظامی کے پیغام کی اصل کاپی دے دی تھی۔ انہوں نے اسی دن انٹرنیٹ کے ذریعے پورے برطانیہ میں جناب نظامی کا پیغام پہنچا دیا تھا۔ جناب نظامی نے کہا کہ ”بابائے قوم نے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا لیکن ہماری سیاسی اور عسکری قیادت مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے چنگل سے نجات دلانے میں بہت کم سنجیدہ ہے۔ اہل گلاسگو ان پر اور برطانیہ پر دباﺅ ڈالیں“، بابائے امن اور ان کے دو رفیقوں ”بزم شعر و نغمہ“ کی چیئرپرسن نامور شاعرہ محترمہ راحت زاہد اور ”گلاگو انٹرل کلچرل آرٹس گروپ“ کے چیئرمین شیخ محمد اشرف نے ایک مقامی ریستوران میں ایک پرتکلف ظہرانے کا بندوبست کیا جس میں گلاسگو کی ”Cream“ جمع تھی۔ ”بابائے امن“ نے جناب مجید نظامی کا پیغام پڑھا تو شرکا نے کئی بار تالیاں بجائیں۔
6 ستمبر کی شام کو ”بزم شعر و نغمہ“ اور ”گلاسگو انٹرکلچرل آرٹس گروپ“ کے اشتراک سے ”york Hill Hospital“ کیلئے فنڈز اکٹھا کرنے کیلئے ایک دوسرے ریستوران کے وسیع و عریض ہال میں مشاعر منعقد کیا گیا۔ ٹکٹ داخلہ 12 پونڈ تھا۔ ہال کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اداکار سید وصی شاہ اور میں صدر مشاعرہ برطانیہ کے مختلف شہروں سے شعرا اور شاعرات کو مدعو کیا گیا تھا اور کراچی سے عالمی شہرت یافتہ شاعرہ محترمہ ریحانہ روحی سمیت تمام شعراءاور شاعرات نے اردو میں نظمیں اور غزلیں سنائیں لیکن میں نے اپنی پنجابی نظم پڑھی جس کا عنوان تھا ”دل میرا، میری جان، کراچی لہولہان“ اور گلاسگو کے دوسرے احباب جانتے تھے کہ میں گلاسگو کا سفر نہیں کر سکتا۔ میں لندن کے ہسپتال میں تھا تو ”بابائے امن“ اپنی بیگم صاحبہ محترمہ زبیدہ ربانی، بھتیجی محترمہ پروین اور دوسرے رشتہ داروں کو لے کر بغیر اطلاع دیئے میرے کمرے میں آدھمکے تھے۔ اس بار بھی چند دوستوں کو ہمراہ لانا چاہتے تھے کہ اچانک محترمہ زبیدہ ربانی کی طبیعت ناساز ہو گئی۔ میں نے عرض کیا کہ ”بابائے امن جی! لہور آﺅ گے تے گھٹ گھٹ جھپیا پاواں گے“۔ محترمہ راحت زاہد نے گلاسکو میں ادبی محفل منعقد اور ”Skype“ یا ٹیلی فون پر میری شرکت کا فیصلہ سنا دیا تو میرا جی نہیں چاہا اور کہا کہ ”آپ گلاسگو کے بارے میں میری اس نظم پر گزاراکر لیں جو 2006ءکے جشن گلاسگو کیلئے اسلام آباد ٹیلی کر کے مجھ سے لکھوائی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ گلاسگو شہر، اس کے قدیم باشندوں اور اپنے پاکستانیوں کے بارے میں جو نظم لکھی تھی، اس کے دو شعر پیش خدمت ہیں۔
”امن و سکوں کا سفینہ جیسے
لوگ میں، اہل مدینہ جیسے
سب سے نرالا، سب سے جدا ہے
شہر گلاسگو، شہر وفا ہے“

ای پیپر دی نیشن