چند روز قبل میں نے اپنے کالم ”مسلم لیگ ن اورمکافات عمل“ میں نشاندہی کی تھی کہ مسلم لیگ ن سخت بحران کا شکار ہو سکتی ہے، اور قیادت کی ضد پارٹی کے سینئر رہنماﺅں کو باغی کر سکتی ہے۔ جو پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔ وہی ہوا کہ ن لیگ میں اختلافات کھل کر سامنے آچکے ہیں ۔ بعض حلقوں کے مطابق جماعت کے سینئر رہنماﺅں نے مریم نواز کی قیادت میں کام نہ کرنے کا حتمی فیصلہ بھی کر لیا ہے۔ اور اسی طرح کے دوسرے اختلافات کے پیش نظرمتعدد اراکین قومی و صوبائی اسمبلی ایسے ہیں جو کہ مسلم لیگ ن کو چھوڑنے کا فیصلہ کر چکے ہیں اور ان میں بعض اہم نام بھی شامل ہیں یہاں تک کہ بعض وزراءبھی مستعفی ہو کر نواز شریف کو سر پرائز دے سکتے ہیں ۔ اور دوسری طرف بزرگ سیاسی رہنما ﺅ ںکے اچانک بہت زیادہ متحرک ہونے کی وجہ سے ن لیگ خاصی پریشان دکھائی دے رہی ہے۔ اس کے علاوہ ایک نئی مسلم لیگ وجود میں آنے کے لیے بے تاب ہو رہی ہے اس کے لیے آنے والے دنوں میں ایک اہم سر پرائز خود مسلم لیگ ن کی ایک اہم شخصیت دے سکتی ہے۔ ان تمام مسائل پر بات چیت کرنے کے لیے گزشتہ روز وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے ملاقات کی جبکہ اس سے قبل اسلام آباد میں وزیر اعظم نے کابینہ کے ایک اہم اجلاس کی صدارت بھی کی اور جس میں انہوں نے 6سرکردہ وزراءسے ملاقاتیں کیں کہ میاں نواز شریف کی نااہلیت کے بعد مسلم لیگ مسائل کا شکار ہوتی جارہی ہے ، لہٰذاہمیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اب جماعت کو کون لیڈ کرے گا،کون باغی اراکین کو سمجھائے گا اور اس بڑی جماعت کو ایک بار پھر ٹوٹنے سے کون بچائے گا؟ چونکہ میاں نواز شریف کرپشن کیسز میں اس قدر اُلجھے ہوئے ہیں کہ وہ پارٹی کے مسائل حل کرنے سے قاصر ہیں اس لیے وزیر اعظم کو سینئر وزراءنے ”بولڈ“ فیصلے کرنے کا کہا۔
اس کے بعد وہ فوری طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب کے پاس لاہور میں آئے۔ اور وزیراعلیٰ سے کہا کہ ہم کسی صورت بھی آپ کے خلاف نہیں چل سکتے۔اور نہ ہی مسلم لیگ کو ٹوٹتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں اس لیے ہمیں کوئی درمیانی راستہ نکالنے کی اشد ضرورت ہے۔ لہٰذامیرا یہ آپ کو مشورہ ہے کہ یا تو سینئر لیڈر میں سے کسی کو جماعت کی صدارت کے لیے آگے آنا چاہیے۔ اور اس کے لیے آپ سے بہتر کوئی دوسرا شخص نہیں ہو سکتا۔ لہٰذاان تمام چیزوں پر غوروخوض کے بعد میاں شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی اور خواجہ آصف 3روزہ نجی دورے لندن پر پہنچ چکے ہیں جبکہ سلمان شہباز بھی انہیں جلد جوائن کر لیں گے۔ یہ تمام قیادت میاں نواز شریف کو اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کریں گے کہ میاں صاحب کو آمادہ کریںاس قوم اور جماعت میں تقسیم پیدا ہو رہی ہے۔ انتشار پیدا ہورہا ہے، مریم نواز کو پارٹی میں کوئی اور کردار دے دیا جائے۔ تاکہ سینئرز کی حق تلفی ہونے سے بچ جائے.... خیر فیصلہ جو بھی ہو یہ تو آنے والے چند دنوں میں واضح ہو جائے گا۔ مگر بادی النظر میں یہ سینئر لیڈر شپ کی آخری کوشش ہوگی اور رہی بات چوہدری نثار جیسے دوسرے لیڈرز کی تو وہ بھی اپنی آخری کانفرنس جو ہفتے کوہوئی ہے اُس میں کہہ چکے ہیں کہ ہم مسلم لیگ کو نئی سمت لے کر جائیں گے۔
میرے خیال میں ”مسلم لیگ “ ن لیگ اپنے ایک نئے سفر کی طرف رواں دواں ہے۔ اور یہ شاید شخصیت پرستی سے نکل کر” نظریاتی جماعت“ کے سفر کا آغاز بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن اس کی بدقسمتی یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ضد اس جماعت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ تو پھر یہ مقولہ سچ ثابت ہوجائے گا کہ پاکستان میں آج تک جتنے بھی ڈکٹیٹر آئے وہ پیپلز پارٹی کو ختم نہ کرپائے لیکن اُن کی پارٹی کے اپنے ہی لیڈر آصف علی زرداری نے اس جماعت کو ختم کردیا۔اور اب سننے میں آیا ہے کہ آصف زرداری کے تازہ ترین پلان کے مطابق گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بر خوردار بلاول کو بٹھایا جائے گا اور پچھلی سیٹ پر زرداری صاحب بیٹھ کر گاڑی کو کنٹرول کریں گے۔ یہ بھی پتا چلا ہے کہ ایک ماہر انجینئر کی مدد سے گاڑی کا ایکسلریٹر، بریک اور کلچ ڈرائیونگ سیٹ کے پیچھے لگوا لیے گئے ہیں اور بلاول بھٹو کے پاﺅں میں تین کھلونے رکھ دیے گئے ہیں، جن کو دبانے سے موسیقی کی دل کش دُھنیں نکلتی ہیں۔
پیپلز پارٹی کے سر کردہ رہنماﺅں کی سیاست میںبھی اُسی وقت جان پڑے گی جب وہ آصف زرداری کی جان چھوڑیں گے یا آصف زرداری اُن کی جان چھوڑیں گے۔ عوام کافی حد تک بالغ نظر ہو چکے ہیں۔اب وہ موروثی سیاست، جمہوریت کے نام پر بادشاہت اور جھوٹ جیسے پھندوں میں نہیں پھنسیں گے۔ اس لیے کل کلاں شاید تاریخ یہ بھی کہے گی کہ پاکستان مسلم لیگ جو 1985ء سے مسلم لیگ اور پھر 1988ءسے ”مسلم لیگ ن“ بنی اُس کے اختتام کا باعث بھی اُسی جماعت کا سربراہ ہی بناہے ۔ اس لیے میاںصاحب کو آج یہ سوچنا چاہیے کہ اُن کی وجہ سے پارٹی جن مسائل کا شکار ہے وہ اُن کے خاتمے کی طرف بڑھتے ہوئے اپنے آپ کو جماعت سے الگ کرکے اپنے اوپر لگے مقدمات میں سے نکلنے کے لیے کام کریں۔
میرے نزدیک 2نومبر سے شروع ہونے والا حکمران جماعت کا اجلاس اس حوالے سے ہنگامہ خیز ہو سکتا ہے۔ کہ ریاض پیر زادہ، میر ظفر اللہ خان جمالی سمیت سینئر اراکین، اس بات پر بڑی شدو مد کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں کہ جماعت کی قیادت اس خاندان سے باہر ہونی چاہیے۔ چونکہ یہ ایک قسم کی وراثت نہیں ہے۔ حالات تو یہ ہیں کہ ڈی چوک پر دینی جماعتوں کا دھرنا جاری ہے۔ سیاسی جماعتوں میں پریشانی ہے۔ مسلم لیگ اندرونی خلفشار کا شکار دکھائی دیتی ہے، اس میں نئے مقدمات کا آغاز اور پرانی کمیشن کی رپورٹوں کے حوالے سے بھی مطالبات شد و مد کے ساتھ آگے بڑھیں گے ، ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ پاکستان میں سب کچھ ٹھیک ہو۔ آنے والا دن، مہینہ اور سال پاکستان کے لیے حقیقی تبدیلی کا سال ہو کہ ملک کی ترقی کا پہیہ چلتا نظر آئے .... کہیں جھوٹ کی سیاست نظر نہ آئے اور نہ ہی کہیں ”بدیس میں دیس کے فیصلے“ہوں کیوں ان فیصلوں کی اہمیت گردو وغبار کی طرح ہوتی ہے۔ جو ذرا ہوا چلے تو ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس ملک و قوم پر رحم کرے اور اچھا لیڈر عطاءکرے، خواہ وہ نئی مسلم لیگ میں سے ہوں یا پرانی سے مگر محب وطن ہوں!