صوبہ بلوچستان کی (STRATIGIC) تنرویراتی اہمیت دیگر صوبوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کی معدنی وسائل دولت 700کلومیٹر لمبی سمندری پٹی اور سمندر سے حاصل کی جانے والی بے انتہا قیمتی اشیاءصرف اس صوبے کو حاصل ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے یہ صوبہ ملک کا سب سے زیادہ (NEGLECTED) غفلت زدہ علاقہ ہے۔ دیگر امور کے علاوہ تعلیم جیسا بے حد اہم شعبہ مکمل بے راہ روی کا شکار ہے۔ صوبے میں تعلیم کا معیار صرف 28فی صد ہے جو کہ جنوبی ایشیا میں(31.9فی صد) اور افریقی ریاستوں میں(36.8 فیصد) سے بھی بہت زیادہ کم ہے جبکہ یہی صوبہ سالانہ 2ملین ڈالر مالیت کی قدرتی گیس ملک کومہیا کر رہ اہے نیز یہاں تابنا ، سونا، کوئلہ، سنگ مرمر اور دیگر لاتعداد معدنیات پائی جاتی ہیں۔ لیکن تعلیم کے حوالے سے اسے سب سے زیادہ نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
وفاق اور صوبائی حکومتیں وہاں کے سیاسی معاملات میں بے جا مداخلت کرتی ہیں اور یہ صوبہ لاتعداد سرداروں“ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جو کہ وہاں لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ نتیجتاً وہاں کے عوام اور لاکھوں بچوں کا (تعلیمی حوالے سے) مستقبل تاریک ہو گیا ہے۔ بے انتہا بدعنوانی معدنیاتی دولت اور صوبائی آمدنی کی بد انتظامی ، لوٹ مار اور ناقص حکمت عملی نے صوبے میں لاتعداد مسائل کو جنم دیا ہے جس میں تعلیمی سہولیات کا فقدان سر فہرست ہے وہاں پیدا ہونے والے بچے جو غذا کی کمی کے باوجود اگرکسی نہ کسی طرح زندہ بچ جاتے ہیں تو اُن کو تعلیمی سہولیات میسر نہیں آتیں۔ اس صوبے میں سکول نہ جانے والے بچے دوسرے صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہیں اور 2.2ملین سکول جانے کی عمر والے بچوں میں سے 1.8 ملین کو تعلیمی سہولیات میسر نہیں ہیں۔
2014-15 کی Education Statistics جوکہ Education Planning & Management نے تیار کیں کے مطابق 5-16 سال کی عمر کے بچوں میں سے 24.02 ملین بچے سکول نہیں جا پاتے اور ملکی سطح پر یہ تعداد 70فی صد ہے جو کہ پورے ملک میں سب سے زیادہ ہے۔
صوبے میں کل 12347 سرکاری سکول ہیں جن میں صرف 6فی صد ہائی سکول کا درجہ رکھتے ہیں۔ موثر تعلیمی نظام کے چند اہم Indicators درج ذیل ہیں
اول: طلباءاور اساتذہ کا تناسب ۔ یہ ایک انتہائی اہم پہلو ہے جو کہ بلوچستان مٰں 42ہے جبکہ صوبہ پنجاب میں 13 اور 20 صوبہ سندھ میں ہے ۔42 طلبا کو ایک ٹیچر کیسے کنٹرول یا پڑھا کر سکتا ہے۔
دوم:ہماری حکومت کی طرح عالمی Donors یعنی امدادی ادارے بھی بلوچستان کو نظر انداز کر تے ہیں۔
وفاق کی طرف ایک اور بڑی زیادتی وزیر داخلہ نے کی جب انہوں نے جون 2015میں بلوچستان اور پختون خواہ صوبوں میں
Save The Children's Operation کو بند کر کے اس مدکے لےے مقتص فنڈز پنجاب اور سند ھ دے کو دئےے ۔
بلوچستان میں اس وقت گورنمنٹ کے تحت چلنے والے 13000 (تیرہ ہزار)سکولز ہیں جن میں سے 5000(پانچ ہزار) میں صرف ایک ٹیچر ہے سکول کی عمارت خود تعمیر کردہ کچا (Shelter) جھونپڑا ہے ان میں پانی، بجلی، ڈیسک کرسیاں، بیت الخلا اور کھیل کے میدان موجود نہیں اور تعلیمی فقدان کے سبب نوجوان نسل تیز ی سے دہشت گردوں اور تخریب کاروں کے چنگل میں پھنستی جا رہی ہے۔ اسی لئے صوبے میں آئے دن دہشت گردی کے دل سوز واقعات دیکھنے میں آتے ہیں۔
قارئین! معدنیات کی بے پناہ دولت اور Strategic Importance یعنی تنرویراتی اہمیت کا صوبہ بلوچستان ہمارے حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے دن بدن بدامنی اور تنزلی کا شکا ر ہے۔ اس صوبے کو دہشت گردی کی آماجگا بنانے میں حکومت وقت کا اپنا ہاتھ ہے۔ ہمارے دشمن اسے ملک سے الگ کر کے اُس پر قبضہ کرنے کے لےے ہماتن مصروف عمل ہیں۔ حکومتی بے حسی کی وجہ سے بھارت امریکہ وغیرہ اسے متنازعہ علاقہ قرار دے رہے ہیںاور وہ CPEC جس سے ملک کو اور خصوصاًبلوچستان کو بے پناہ ترقی خوشحالی میسر آئے گی کو ہر صورت میں ناکام بنانے پر تلے ہوئے ہیں اور اس سلسلے میں ہمارا بدترین دشمن بھارت پیش پیش ہے ۔ اور وہ وہاں پر تخریبی کاروائیوں کی مکمل سر پرستی کر رہا ہے اور اس سلسلے میں RAW میں ایک الگ شعبہ تشکیل دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں بھارتی جاسوس کلبھوشن کی گرفتاری صرف Tip of the Ice Berg ہے ایسے درجنوں بھارتی تربیت یافتہ تخریب کار افغانستان اور ایران کے ذریعے بلوچستان میں دہشت گردی میں مصروف ہیں اور دیگر صوبوں میں معلوم نہیں ہمارے حکمران جوکہ مال اور دولت کی لوٹ مار میں مصروف ہیں وہ کب خواب خرگوش سے بیدار ہو ںگے؟؟