قومی سروس جواب ”لاجواب“ نہیں رہی....؟

باکمال لوگوں کی لاجواب سروس، کا موٹو رکھنے والی قومی ائر لائن ”پی آئی اے“ کے وقار کی بحالی کیلئے گزشتہ 6 برسوں میں جو قومی رونا میں نے ان کالموں میں رویا وہ کچھ میں ہی جانتا ہوں۔
2012 میں پی آئی اے کو 25 ارب روپے کی فوری ضرورت پر کالم لکھا تو بعض اعلیٰ افسرن کی اجلی پیشانیوں پر سلوٹیں دیکھنے کو ملیں....؟ پھر 2000 میں قومی ائر لائن کو ہونے والے 52 ملین ڈالر خسارے کے بارے میں جب دھائی دی بعض بڑے صاحبوں نے جلتی پر تیل ڈالنے والا قرار دے دیا....: حلانکہ ”ولایت نامہ“ میں میں نے ان 3 ایسے ہوا بازوں کا ذکر کیا تھا جن کے پاس مبینہ طور پر ہوا بازی کی ڈگریاں ہی نہیں تھیں.... مگر وہ پھر بھی بوئنگ اڑا رہے تھے؟ اسی طرح قائمہ کمیٹی کے سامنے 2012ءمیں پی آئی کے خسارے کی رپورٹ کا میں نے ذکر کیا تھا مگر اب خسارہ کی تو دور کی بات طیارے 7 لاکھ فروخت ہونے شروع ہوگئے ہیں....؟
2000 سے 2014ءکے عرصہ کے دوران پی آئی اے کو ہونے والے شرمناک خسارے کا تفصیلی جائزہ متعدد بار چونکہ پہلے بھی پیش کرچکا ہوں اس لئے اسے دھرانا درست نہیں پھر یوں بھی اس خسارے تے معاملہ اب اتنی دور نکل چکا ہے کہ کچھ کہتے ہوئے ندامت سی ہونے لگتی ہے۔ وہ 747-300 سیسرز بوئنگ اور متعد ائیر لیسز جن پر بحیثیت پاکستان ہمیں فخر ہوا کرتا تھا آج Scrap Yards تک پہنچ چکے ہیں۔
آپکا حافظہ اگر کمزور نہ ہو تو آپکو بخوبی یاد ہوگا کہ پی آئی اے کے حد سے تجاوز کرتے ہوئے خسارے کے بارے میں اوورسیز پاکستانیوں نے جب ”رولا“ ڈالا تو اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے جنہیں عدالت عظمی اب مکمل طور پر نا اہل قرار دے چکی ہے۔ انتخابات سے قبل اپنے ایک خطاب کے دوران پی آئی اے کو ہونے والے شرمناک خسارے کے بارے میں گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا تھا کہ قومی فضائی کمپنی کے مالی نقصان کو پورا کرنے کے لئے نیویارک میں واقع پی آئی اے کو اپنا ہوٹل فروخت کرنا ہوگا تاکہ حد سے تجاوز کرنے والا خسارہ پورا کیا جاسکے مگر افسوس! کہ نواز شریف کی یہ توقع بھی رات گئی بات گئی سے آگے نہ بڑھ سکی؟ وہ برسر اقتدار بھی رہے مگر پی آئی اے کے خسارے کو کم نہ کرسکے؟
2014 میں پی آئی اے کو جب 2 سو ارب روپے کا خسارہ ہوا تو قوم کو یہ قومی امید تھی کہ حکومت ضرور عملی اقدامات کرے گی زیادہ نہیں تو کم از کم نیویارک میں واقع پی آئی اے کا ہوٹل فروخت کردیا جائے گا مگر افسوس! معاملہ جوں کاتوں رہا۔ پی آئی اے کی مالی بربادی کی وجوہات تو کئی اور بھی ہیں مگر ایک بڑی وجہ زائد عملہ اور پی آئی اے حکام کے شاہانہ دورے اور اخراجات ہیں۔
چیئرمین نژاد چیف ایگزیکٹو Bernd Hilden Brand نے جب تک قومی ائر لائن کی باگ ڈور سنبھالے رکھی اخراجات میں بھر پورا اضافہ ہوتا رہااور پھر نوبت جہاز بیچنے تک آگئی۔ مبینہ طور پر 70 لاکھ میں طیارہ فروخت کردیا گیا اور کہیں کانوں کان خبر تک نہ ہوئی؟ ممکن ہے یہ خبر ابھی Leak نہ ہوتی اور معاملہ دب کر رہ جاتا اس میں تو پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کام آگئی جس کے سامنے محکمہ شہری ہوا بازی کے چیئرمین نے سب کچھ صاف صاف بتادیا۔
”برنلڈ ہلڈن برانڈ“ وہی سابقہ سی او او تھے جنہوں نے لندن میں ڈیڑھ برس قبل ہونے والی پریس کانفرنس کے دوران میرے ایک سوال کے جواب میں پی آئی اے کو ایک برس میں منافع بخش اور اسکے کھوئے ہوئے عالمی معیار کو دوبارہ واپس لانے کی یقین دہانی کروائی تھی۔ ”پرئمیر کلاس“ کا اجرا اور قطر سے تربیت یافتہ 20ائر ہوسٹوں کی خوشخبری بھی انہوں نے دی تھی۔ پھر پرئمیر کلاس کا اجرا بھی ہوا۔ ائر ہوسٹسوں نے دوران تربیت ”مسکراہٹوں“ پر نمایاں نمبر بھی حاصل کئے۔ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے اسلام آباد سے لندن کے لئے پرئمیر کلاس کو اپنی مسکراہٹوں سے رخصت بھی کیا۔ مگر پر جلدی ہی ع چراغوں میں روشنی نہ رہی! اور یوں 2 ارب روپے کے مبینہ خسارے کے بعد یہ کلاس بند کردی گئی.... جس سے قومی فضائی کمپنی اب مزید نقصان سے دوچار ہے۔
پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے سامنے محکمہ ہوا بازی کے چیئرمین عرفان قادر الٰہی نے جو رپورٹ پیش کی اس میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ چیف ایگزیکٹو نے 2016ءکے دوران 22 دورے کئے اور 99 دن ملک سے باہر رہے.... جن پر مجموعی طور پر 18 عشارئیہ 2 ملین روپے اور 2 ڈائریکٹروں کے 13,13 دوروں پر تقریباً 3 ملین روپے کے اخراجات برداشت کرنے پڑے۔ جس سے پی آئی اے کو مزید نقصان سے دو چار ہونا پڑا۔
دوسری جانب، امارات ائر لائن نے جیسے پاﺅں پر کھڑا کرنے کے لئے پی آئی اے کے انجینئروں، ٹیکنیکل سٹاف اور دیگر شعبوں کے ماہرین نے خدمات سرانجام دیں۔ مارچ 2017ءمالی سال کے دوران 670 ملین امریکی ڈالر کا منافع حاصل کیا ہے۔ جبکہ پی آئی اے کے لیز پر حاصل کئے بیشتر Tripple Seven طیاروں کو جو دنیا بھر میں کم فیول پر منافع بخش ثابت ہو رہے ہیں ”مرمت“ کے شعبوں کے حوالے کیا جاچکا ہے۔ جن پر یقینا بھاری اخراجات اٹھیں گے جبکہ New York Route پر پی آئی اے گزشتہ 10 سالوں سے پہلے ہی شدید خسارے سے دوچار ہے؟۔
قومی ائر لائن کا مستقبل اب کیا ہوگا؟ یہ وہ سوال ہے جومجھے اپنے وزیراعظم خاقان عباسی سے اسلئے بھی پوچھنا ہے کہ برطانوی پاکستانیوں کے بھجوائے ریکارڈ توڑ سالانہ زر مبادلہ کے باوجود قومی ائرلائن میں اگر عملی طور پر لاجواب سروس، متعارف نہیں کروائی جاتی تو پھر ایسی فضائی کمپنی کا فائدہ کیا؟ پی آئی اے کو منافع بخش کمپنی بناتے ہوئے اب قومی سطح پر ایسے اقدامات ضرور کر جائیں جنہیں قوم آپکے ”سٹینڈر“ کے اختتام کے بعد بھی یاد رکھے۔ کہ پاکستان ریلوے پہلے ہی 27 ارب روپے خسارے سے دوچار ہے۔

ای پیپر دی نیشن