وزیر اعظم کا کامیاب دورۂ سعودی عرب

Oct 30, 2018

حافظ زبیر احمد ظہیر

عمران خان ایک ایسا شخص ہے جو فنا فی الپاکستان ہے۔ اس لیے کئی لوگ اسے پاکستان خان بھی کہتے ہیں۔ اس کے درویشانہ سادہ لباس اور سادہ انداز سب جانتے ہیں۔ اس کے حالیہ دورۂ سعودی عرب پر میرے دیرینہ دوست اور بھائی خوشنود علی خان نے لکھا ہے کہ سعودی عرب کا دورہ کرنے والا یہ پہلا پاکستانی وزیر اعظم تھا جس کا سوٹ لاکھوں کا نہیں تھا، امپورٹڈ بھی نہیں تھابلکہ بار بار استری کرنے کی وجہ سے کوٹ پر نشانات تھے۔ اس کے قریبی لوگ کہتے ہیں کہ اسے اچھا کھانے اچھا پہننے، اپنی شان و شوکت، کروفر اور نازو نخروں کی نہیں بلکہ پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے اور عوام کو ایک عظیم قوم بنانے کی فکر لاحق رہتی ہے۔ برسراقتدار آنے کے بعد اس نے اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے سب سے پہلے سعودی عرب جانے کا اعلان کیا جو ایک واضح پیغام تھا کہ وہ کدھر جانا چاہتا ہے۔ اس اعلان سے ہر مسلمان دل نے خوشی محسوس کی اور دعا دی کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی راہ پر چلنے والے کبھی ناکام و نامراد نہیں رہے۔
اللہ عمران خان اور پاکستان کو حرمین شریفین سے ملنے والی خدائی رہنمائی کو سینے سے لگانے اور ملک کو قوم کو بحرانوں سے بچانے کی توفیق بخشے۔آمین۔ جب وہ اللہ کے گھر اور کملی والے کے در پر حاضری دینے کی سعادت حاصل کرنے کے بعد واپس لوٹا تو مایوسی پھیلانے والوں رقیبان روسیاہ اور حاسدان دونگاہ نے زمین وآسمان کے قلابے ملاتے ہوئے عوام الناس میں بے دلی پھیلانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ عمران خان سعودی عرب سے کچھ بھی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ سعودی عرب نے پاکستان کو چھوڑ دیا یا پھر سعودی حکمران کسی خاص شخصیت یا خاندان کی وجہ سے پاکستان کی مدد کرتے تھے یا سعودی عرب کے اپنے حالات ٹھیک نہیں۔ امید بہاراں پر قدغن لگانے والوں نے ایڑھی چوٹی کا زور لگا لیا مگر
وہ چراغ کیا بجھے جس کی حفاظت خدا کرے
میرا ایمان گواہی دیتا تھا کہ اس جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا۔ اس کے باوجود کہ آج سعودی عرب کچھ اپنوں اور کچھ بیگانوں کی مہربانیوں کی وجہ سے سخت بحرانوں اور مشکلات میں مبتلا ہے۔ مگر اس نے جس طرح پاکستان کو معاشی بحران اور مشکلات سے نکالنے کے لیے فراخدلانہ اور انتہائی مخلصانہ دست تعاون بڑھایا۔ ہماری ڈوبتی ہوئی معیشت کو سہارا دیکر ہمیشہ کی طرح حق دوستی اس شان سے ادا کیا کہ شاید دنیائے دوستی میں ایسی مثال نہ ہو۔
سعودی عرب نے 12ارب ڈالرز کا پیکج یعنی 3ارب نقد اور 9ارب کا تیل دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس پیکج سے روپیہ مستحکم ہوگا۔ ڈالر نیچے آئے گا۔ زر مبادلہ کے ذخائر پر دباؤکم ہوگااور معیشت دن بدن سنبھلتی چلی جائے گی۔ پاکستان میں استحکام آئے گا اور پھر اسمیں دوام آئے گا۔ خادم الحرمین شریفین شاہ سلیمان بن عبدالعزیز اور ان کی حکومت نے عملاً ثابت کر دیا کہ سعودی عرب پاکستان کے ساتھ تھا، پاکستان کے ساتھ ہے اور پاکستان کے ساتھ رہیگا۔ وہ کبھی پاکستان کو تنہا نہیںچھوڑ سکتا۔ کیونکہ پاکستان اور سعودی عرب آپس میں لازم وملزوم ہیں۔ دونوںکا تعلق جسم اور روح کی مانند ہے۔ اس لئے اس نے جنگ ہو یا امن، دفاعی ضروریات ہوں یا بین الاقوامی فورموں پر تائید و حمایت، زلزلہ ہو یا سیلاب اس نے ہر مشکل میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور دیتا رہے گا۔
تحریک انصاف اور عمران خان کی حکومت کو یہ دوستی پیکج پاکستان اور پاکستانی عوام کے لازوال اور مضبوط رشتوں کو مزید مضبوط اور مستحکم کرنے، آگے بڑھانے اور پاک سعودی دوستی کو آسمانوں کی بلندیوں سے بھی آگے لیجانے کا اعلان ہے۔ یہ اعلان ہے کہ سعودی عرب کا یہ رشتہ کسی خاص سیاستدان ، خاندان یا پارٹی سے نہیں بلکہ صرف اور صرف پاکستان اور پاکستانی قوم سے ہے۔ نظریۂ پاکستان کلمہ طیبہ لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ سے ہے۔ اس مقدس و محترم نظریاتی اور دینی تعلق میں کسی حکمران کے آنے اور جانے سے کمزور ی نہیں آسکتی۔ سعودی حکمران کہتے ہیں کہ ہمارا اور پاکستان کا رشتہ صرف معاشی ، سیاسی،دفاعی یا روایتی قسم کا نہیں بلکہ یہ رشتہ عرش والے خدا اور مدینے والے مصطفیﷺ کی وجہ سے دینی اور ایمانی بھائی ہونے کا رشتہ ہے اور اس رشتہ پر ہم کبھی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ اس لیے مولانا ظفر علی خان نے کہا تھا کہ
ہمیں دوست رکھتے ہیں جتنے ممالک
خلوص اور محبت کا رشتہ ہے سب سے
مگر اس تعلق پہ قربان جائیں
ہماری کئی نسبتیں ہیں عرب سے
آخرمیں یہ اہم بات بھی ہمارے پیشِ نظر رہنا ضروری ہے کہ ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر بنانے میںاصل کردار سفراء ادا کرتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان میں متعین سفیر خادم الحرمین شریفین نواف بن سعید مالکی نے پاک سعودئیہ دوستی میں حائل رکاوٹوںکو ختم کر کے اس کو مضبوط اور مستحکم بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جس پر وہ حقیقی طور پر خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ پاکستان اور پاکستانیوں کے سچے دوست اور خیرخواہ ہیں۔ اہلِ پاکستان پر بھی فرض ہے کہ ایسے مخلص اور عظیم دوستوں سے دوستی اور محبت کے تقاضے نبھائیں اور اپنی ذمہ داریاں پوری کر کے دکھائیں۔

مزیدخبریں