25 جولائی کے عام انتخابات نے ملک میں دو جماعتی نظام کی جگہ سہ جماعتی حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کر دی اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان مسند وزارت عظمیٰ پر فائز ہوئے۔ اب جبکہ ان کو حکومت سنبھالے پونے تین ماہ ہو گئے ہیں‘ ان کا اپنے سیاسی مخالفین کیلئے طرزتخاطب وہی ہے جوکہ اقتدار میں آنے سے پہلے تھا۔ ان کے طرزعمل کا ان کی سیاسی جماعت پر پہلے بھی منفی اثر پڑا تھا۔ پی ٹی آئی کے اندر عدم برداشت دراصل خان صاحب کے انداز سیاست ہی کا نتیجہ ہے۔ ملک میںجوں جوں عام انتخابات ہوتے ہیں‘ جمہوریت کی گاڑی آگے بڑھتی ہے۔ ہمارے یہاں بھی لولی لنگڑی جمہوریت میں عام انتخابات کے نتیجے میں قدرے بہتری آئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان بلاشبہ ملک کو آگے بڑھانے کیلئے کوشاں ہیں۔ ہمیں ان کی اس بات سے اتفاق ہے کہ ہمارے ملک میں غلامانہ مائنڈ سیٹ رہا ہے‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی سیاست پر فوجی حکومتوں کے گہرے اثرات رہے ہیں۔ بلاشبہ سیاستدانوں نے بھی پے در پے غلطیاں کیں جن کا اقتدار پر شب خون مارنے کی سوچ رکھنے والے فائدہ اٹھاتے رہے۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ پاکستان میں جن سیاستدانوں نے بڑا مقام حاصل کیا وہ کسی نہ کسی وقت مصلحتوں کا شکار ہوکر غیر جمہوری قوتوں کے آلہ کار بنے۔ ماضی پر نگاہ ڈالیں تو ذوالفقار علی بھٹو بھی غیرجمہوری حکمران سکندر مرزا کی ٹیم کا حصہ بنے اور پھر وہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے چہیتے وزیر اور ان کی قائم کردہ ’’کنونشن مسلم لیگ‘‘ کے سیکرٹری جنرل رہے۔ جنرل یحییٰ خان نے اقتدار سنبھالا تو انکے ہاتھوں استعمال ہوئے۔ انکے نائب وزیراعظم کی حیثیت سے اقوام متحدہ گئے اور جنرل اسمبلی میں وہ شہرہ آفاق تقریر کی جس کے دوران انہوں نے پولینڈ کی قرارداد پھاڑ دی۔ ذوالفقار علی بھٹو کا دور حکومت میں جہاں ایٹم بم کی بنیاد رکھنا‘ لاہور میں اسلامی کانفرنس منعقد کرنا‘ قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینا‘ 1973ء کا آئین بنانا شامل ہیں وہاں ان کا اپنے سیاسی مخالفین حتیٰ کہ اپنی پارٹی کے رہنمائوں کو اختلاف پر عبرت کا نشان بنانا ان کے طرزحکمرانی پر بدنما داغ ہیں۔ آج کے رہنما میاں نوازشریف ماضی قریب میں فوجی جرنیلوں کی چھتری تلے سیاست میں آئے۔ ان کا پنجاب کا وزیر بننا اور پھر وزیراعلیٰ کے عہدے تک پہنچنا خالصتاً فوجی حکمرانوں کی خوشنودی کا نتیجہ تھا۔ 1993ء میں وہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بنے اور یہی وہ عام انتخابات تھے جن سے پہلے انہوں نے مسلم لیگ (ن) الیکشن کمشن میں رجسٹرڈ کروائی۔ نوازشریف تین مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئے‘لیکن ایک مرتبہ بھی اپنی پانچ سالہ میعاد حکومت پوری نہ کر سکے۔ اس میںجہاں ان کی اپنی غلطیوں اور ان کے طرزحکمرانی کا قصور ہے وہاں ان کیخلاف سازشوں کا بھی بہت اہم کردار ہے۔ ان کے ساتھی چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویزالٰہی‘ شیخ رشید احمد‘ ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کی ٹیم کا حصہ بنے۔ چودھری شجاعت حسین وزیراعظم اور چودھری پرویزالٰہی وزیراعلیٰ پنجاب رہے جبکہ شیخ رشید احمد وفاقی وزیر سے آگے نہ جا سکے۔ آج بھی چودھری پرویزالٰہی سپیکر پنجاب اسمبلی اورشیخ رشید احمد وفاقی وزیر ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے ریفرنڈم میں پرویز مشرف کا ساتھ دیا‘ تاہم2002ء کے عام انتخابات کے بعد انکی راہیں پرویزمشرف سے جدا ہو گئیں۔سوال یہ ہے کہ اب جبکہ عمران خان وزیراعظم بن چکے ہیں اور پرانے پاکستان کو نئے پاکستان میں تبدیل کرنے کے خواہاں ہیں۔ کاش وہ اپنی تلوار کی کاٹ والی زبان پر قابو پا لیں۔ان کا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ انکے دورحکومت میں پہلی مرتبہ سیاستدانوں‘ افسروں اور وزارتوں کا احتساب ہوگا۔ وزیراعظم نوازشریف کا احتساب اس وقت شروع ہوا جب وہ ملک کے وزیراعظم تھے۔ حتیٰ کہ سپریم کورٹ نے انہیں نہ صرف وزارت عظمیٰ کے عہدے سے بلکہ پارٹی صدارت کیلئے بھی نااہل کر دیا۔ وزیراعلیٰ شہبازشریف سمیت نوازشریف اور شہبازشریف کے خاندان کے دیگر افراد کا احتساب بھی انکے اپنے دورحکومت میں ہی شروع ہو گیا تھا۔
قومی احتساب بیورو اگر وزیراعظم عمران خان کو ہیلی کاپٹر کیس یا پارٹی فنڈنگ کیس میں گرفتار نہیںکرتا۔ وزیردفاع پرویزخٹک کو پشاور میٹرو کیس میں نہیں پکڑتا‘ ڈاکٹر بابر اعوان کو نندی پور کیس میں گرفتار نہیں کرتا تو اس میں وزیراعظم عمران خان کا کیا قصور ہے؟؟؟ نیب کے چیئرمین اور بورڈ کو گرفتاریاں کرنے کا جو اختیار ہے وہ اگر پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کیلئے استعمال نہیں کرتے تو قصوروار نیب ہے۔ بلاامتیاز احتساب کیلئے ضروری ہے کہ نیب کا قانون سب کیلئے یکساں طورپر استعمال کیا جائے‘ لیکن کیا کیا جائے کہ پرانے پاکستان کا غلامانہ مائنڈ سیٹ تاحال کام کر رہا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں نیب کو راہ راست پر لانے کیلئے اکٹھی ہوکر دبائو ڈالنا چاہتی ہیں تو اس پر حکمرانوں کا سیخ پا ہونا کیا معنی رکھتا ہے۔ ہم نے ماضی کے کچھ اوراق پلٹے ہیں۔ سو ماضی کے حوالے ہی سے ہم اپنے وزیراعظم عمران خان کو باور کروانا چاہتے ہیں کہ وزیراعظم کا اپنے مخالفین کیلئے جارحانہ انداز انکے حامیوں کے اندربھی سیاسی مخالفین کیخلاف نفرت کے الائو روشن کر دیتا ہے۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی مخالفین کے بارے میں سخت پالیسی ہی کا نتیجہ تھا کہ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کی مال روڈ پر اپوزیشن جماعت کے رہنما ایئر مارشل اصغر خان کے جلوس کے اردگرد جیالوں نے چلتے ہوئے ’’آلو‘‘ ڈنڈوں پر لگا رکھے تھے اور ان کیخلاف غلیظ زبان میں نعرے بھی لگاتے رہے۔ ذوالفقارعلی بھٹو بھی آج کے وزیراعظم عمران خان ہی کی طرح طاقتور حکمران تھے اور جس طرح یہ اپوزیشن کو دیوار سے لگا رہے ہیں‘ وہ بھی یہی کام بخوبی کر رہے تھے۔ وہ اپنی تقریروں میں ایئر مارشل اصغرخان کو ’’آلو خان‘‘ اور ’’آلو‘‘ کہا کرتے تھے۔ اس جلوس کے اختتام پر ہی تحریک استقلال کی اتحادی جماعت کے سربراہ خواجہ رفیق کو جیالوں نے پنجاب اسمبلی کے عقب میں حملہ کرکے شہید کردیا تھا جو ائیر مارشل کے جلوس میں شامل تھے ۔ اس دور میں جیل میں قید اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں ملک قاسم‘ میاں طفیل محمد کے ساتھ جو سلوک کیا گیا‘ وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ سو اب بھی وقت ہے کہ سیاست میں تلخی کا زہر گھولنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ نیب اور عدالتوں کو اپنا کام کرنے دیا جائے۔ جس جس نے گاجریں کھائی ہیں‘ ان کے پیٹ میں درد ہوکر رہے گا۔ آپ بلاوجہ سیاست میں فسطائیت کو نہ گھسیٹیں۔ ابھی وقت ہے‘ لیکن ہوش کے ناخن نہ لئے تو ماضی اپناآپ دہرائے گا اور سیاست میں تشدد کا عنصر داخل ہو جائے گا۔ تاریخ کا پہیہ چلتا رہتا ہے۔ خود پر بدنما دھبے لگوانے سے بچیں۔