وزیر اعظم جناب عمران خان بہت پڑھے لکھے انسان ہیں اور سیاست کے دشت کی سیاحی میں انہوں نے دو عشرے گزار دئیے ہیں لہٰذا یہ خیال ہی بے معنی ہے کہ وہ پارلیمانی نظام کی Dynamicsسے آگاہ نہیں ہوں گے ۔ پارلیمانی نظام کا سیاسی جماعتوں کے سوا پرورش پانا ہی محال ہے ۔ ایسا کونسا پارلیمانی نظام ہو سکتا ہے جہاں اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو ختم کرنے کی Directیا indirectبات کی جائے ۔ خوش خیالی اور خوش بیانی کی اور بات ہے۔
وزیراعظم جناب عمران خان ’’ کسی کو نہیں چھوڑوں گا ‘‘ کے جملے کی بار بار تکرار کر رہے ہیں جو بظاہر غیر جمہوری اور غیر آئینی نعرہ ہے۔ ہم اپوزیشن کے تحفظات کا بھی ذکر نہیں کریں گے ۔ لیکن صاف ظاہر ہے کہ وزیراعظم جمہوری اور اصولی بنیادوں پر وزیراعظم منتخب ہوئے بھی ہیں تو بھی وہ آئین کے تحت وزیراعظم ہیں نہ فوجی صدر ، نہ بادشاہ نہ مغلیہ شہنشاہ …،اس لئے ’’ کسی کو نہیں چھوڑوں گا ‘‘ کا بیان آئین اور جمہوری تقاضوں کے عین مطابق نہیں ہے … ملک کے حالات ایسے ہیں بھی نہیں کہ ایک پارٹی کی حکومت یا Autocracy کی کوشش بھی کی جائے ۔ پاکستان میں ایسی ہر کوشش ناکامی سے دو چار ہوگی۔
حکومت کے تمام دعوئوں کے باوجود اپوزیشن بہت طاقتور ہے اور اس میں کوئی کمزوریاں ہیں بھی تو خود اپوزیشن کے رہنمائوں اور جماعتوں کی وجہ سے ہیں …یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان دو اہم ادارے موجودہ سیٹ اپ کو بوجوہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں ۔بھارت کی پے درپے سازشوں کی بنا ء پر عسکری اداروں کو ملک کی سالمیت اور حفاظت کے حوالے سے بعض معاملات پر یقینا نظر رکھنی پڑتی ہے۔
مسلم لیگ ن کے قائد جناب نواز شریف نے حالیہ بیان میں کہا کہ وہ پاکستان سے غداری کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔جناب نواز شریف کا یہ دعویٰ مبنی بر حقیقت ہے ۔ تین بار وزیراعظم کی حیثیت سے انہوں نے پاکستان کی خدمت انجام دی ہے۔ پاکستان سے ان کی وفاداری کسی شک اور شبہے سے بالاتر ہے ۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ بھارت سے تعلقات کے معاملے میں مسلم لیگ ن اور موجودہ عسکری قیادت میں غیر ضروری طور پر یا غلط فہمی کی بناء پر اختلافات ہوئے ہیں ۔ جہاں نواز شریف کو اپنے وژن میں ابھی غوروفکر کی ضرورت ہے وہاں عسکری اداروں کو بھی بلاتکلف اور بلا جھجک ملک کی تمام جماعتوں سے بھارت سے تعلقات کے حوالے سے ڈائیلاگ اور بہتر کمیونی کیشن کو بھی پروان چڑھانے کی ضرورت ہے ۔ ظاہر ہے حدود متعین کرنا ہوں گی۔بھارت سازش کرے اور ہم خاموش رہیںممکن نہیں ہے پاکستان میں کرپشن ہے یا نہیںہے۔ یہ ایک اور مسئلہ ہے مگر یہ حقیقت ہے کرپشن کے معاملے میں بہت دھول اڑائی گئی ہے۔ مٹی کے طوفان میں پتہ نہیں پڑ رہا ہے کہ کیا درست ہے اور کیا غلط…! ملک کی تمام جماعتوں پر کرپشن کے الزامات لگائے جا رہے ہیں اور صرف حکمران جماعت کو دودھ کا دھلا ثابت کیا جا رہا ہے۔ کیا یہ ممکن بھی ہے ؟
موجودہ صورتحال میں حکمران جماعت کے عزائم خواہ جوہوں نیب اور اس کے محترم اور قابل قدر چیئرمین جسٹس جاوید اقبال کو بھی اپنی روایتی دانش، دور اندیشی اور ذہانت سے کام لینا ہو گا۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں پر ان کے پے درپے وار سے نیب کی Credibility پرسوالات پیدا ہوں گے جب کہ جناب جسٹس جاوید اقبال خود بے حد، محتاط ، غیر جذباتی اور زبردست فہم وفراست کی حامل شخصیت ہیں۔ موجودہ حکومت کو اور پارلیمانی نظام کو چلنے دیا جائے۔ مگر پاکستان کے مخصوص حالات میں یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں کو لنگڑا لولا بنا دیا جائے۔ یوں اندرونی طور پر بعض مسائل پیدا ہوں گے۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کی مثال کافی ہے۔ وہ بہت ذہین، لائق اور ایک لحاظ سے شاطر حکمران تھے۔ عوام میں بے حد مقبول اور عوام کے مزاج سے واقف ۔ وہ جناب عمران خان سے زیادہ ہنرمند رہنما تھے۔ جناب بھٹو کا خیال تھا اور انہوں نے کہا بھی کہ وہ 20 برس سے زیادہ پاکستان پر حکومت کریںگے۔ معروف مغربی صحافی فلاسی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا۔ مگر چھ برس ہی اقتدار کو جاری رکھ سکے۔ وجہ یہ تھی کہ بھٹو نے کسی جماعت کو نہیں چھوڑا اور سب کی خوب پٹائی کی اس صورتحال نے سیاسی جماعتوں کو نو ستاروں ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ PNA کی صورت میں متحد کر دیا۔ پی این اے کی تحریک کے نتیجے میں بھٹو کی حکومت رخصت ہوئی اور فوج آ گئی۔اب بھی اپوزیشن متحد ہو رہی ہے۔ ’’کسی کو نہیںچھوڑوں گا،، کا اپوزیشن میں شدید ردعمل ہو سکتا ہے۔ یہ وہ سوال ہے جس پرکسی کو نہ چھوڑنے کے دعوے کے حوالے سے غور و فکر ناگزیر ہے۔