پیر کو قومی اسمبلی کا چوتھا سیشن شروع ہو گیا ہے جو 9نومبر2018ء تک جاری رہے گا عام تاثر تھا کہ قومی اسمبلی کا شیڈول سیشن ’’ہنگامہ خیز ‘‘ ہو گا لیکن ایوان میں کوئی ہنگامہ ہوا اور نہ شور شرابہ البتہ قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو پروڈکشن آرڈر پر قومی اسمبلی کے ایوان میں تاخیر سے لانے پر اپوزیشن کے ارکان سے واک آئوٹ کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا بہرحال پارلیمنٹ میں مسلم لیگ (ن)کے صدرشہباز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے ایوان میں ایک ساتھ ’’دبنگ انٹری ‘‘ نے ارکان اور مہمانوں کی گیلریوں میں بیٹھے افراد کو سرپرائز دیا۔ دونوں رہنمائوں کی پارلیمنٹ ہائوس کی لابی میں ’’غیررسمی‘‘ ملاقات بھی ہوئی۔بعد ازاں آصف زرداری قومی اسمبلی کے اجلاس سے واپس زرداری ہائوس روانہ ہوگئے، اس موقع پر صحافی نے ان سے سوال کیا کہ کیا شہبازشریف سے ملاقات میں آل پارٹیز کانفرنس پر کوئی پیش رفت ہوئی؟صحافی کے سوال پر آصف علی زرداری نے کہا کہ ابھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو بھی اس طرح کے سوال کا سامنا کرنا پڑا انہوں نے کہا کہ ’’ میری زرداری صاحب سے ملاقات ہوئی، ایک دوسرے کی خیریت دریافت کی، آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت سے متعلق مشورہ کرکے بتائوں گا۔ جب میاں محمد شہباز شریف پارلیمنٹ ہائوس پہنچے تو انہوں نے کہا ہے کہ سپیکر کے پروڈکشن آرڈر کے باوجود نیب مجھے قومی اسمبلی نہیں لانا چاہتا تھا جو کچھ ہو رہا ہے میڈیا کے لوگ مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ حکومت پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر حزب اختلاف کی آواز دبانا چاہتی ہے۔ پارلیمنٹ کی غلام گردشوں میں یہ سوال موضوع بحث ہے کیا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں فاصلے کم ہونے سے متحدہ اپوزیشن کا قیام ہونے کو ہے؟ نیب نے متحارب سیاسی جماعتوں کی قیادت کو قریب تر کردیاہے۔