آئی ایم ایف اورموجودہ نازک دور

جمہوریت جہاں جہاں قدم جما چکی ہے وہاں انتخابات کے بعد شائد ہی کبھی رزلٹ کے حوالے سے اس انداز میں باتیں ہوں جو ہمارے یہاں سنائی دینے لگتی ہیں،ان ممالک میں چند روز تک نتائج کا تجزیہ چلتا ہے اور بس …اس کے بعد حکومتی معیاد کی تکمیل تک خاموشی چھا جاتی ہے،آئندہ انتخابات میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا ہے ،یہ سوال حیرت انگیز اور عبرت آموز ہے کہ ملک میں ایک دو بار کو چھوڑ کر انتخابات جیتے اور ہارنے والے دونوںکی نیندیں حرام ہو تی رہی ہے،ہردور میں کچی پکی چیزیں سامنے آنا شروع ہو جاتی ہیں ،معیشت ہمیشہ نازک مراحل سے گذر رہی ہوتی ہے ،ایوان اقتدار والے یہ کہتے کہتے تھک جاتے ہیں کہ ملک جس نازک لمحات میں ان کے زیرانتظام آیاہے ،اس سے پہلے کبھی ایسی مشکل گھڑی نہ تھی ،اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ زبانیں بند رکھی جائیں اور اپنے کام سے کام رکھا جائے ،دوسری جانب بھی کوئی کچی گولیاں کھیلنے والے نہیں ہوتے ہیں ،غرض ہر دو جانب کی اس چیخ وپکار سے وہی تاثر اور خوف وہراس پیدا ہوتا ہے جو بیمار معاشروں کا خاصا ہے ،افواہیں بکنے لگتی ہیں، تھیوریاں چلنے لگتی ہیں،ادب مزاح کے سالار آعظم جناب مشتاق احمد یوسفی نے اپنی کتاب میں لکھا ’’پاکستان کی افواہوں کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ سچ نکلتی ہیں ‘‘اس نابغہ روز گار مصنف نے ایک اور مقام پر لکھا جس کو پڑھنے کے بعد کسی وضاحت کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ،اقتباس یہ ہے کہ’’لیڈر خود غرض،علماء مصلحت بیں،عوام خوف زدہ اور راضی برضائے حکم،دانشور خوشامدی اور ادارے کھوکھلے ہو جائیںتو جمہوریت آہستہ آہستہ آمریت کو راہ دیتی چلی جاتی ہے‘‘ ،ان دونوں اقتباسات کو اگر ملا کر پڑھ لیا جائے ،تو برسوں پہلے لکھی جانے والی یہ باتیں آج بھی متعلق نظر آتی ہیں،افواہ کا چلن آج بھی ہے اور آمریت کی صورتیں اور طریقے بدلتے رہتے ہیں،ہم صرف ایک طرح کی آمریت کو ہی پیش نظر رکھ کر بات کرتے چلے جاتے ہیں،اور اس کی جڑوں کو جو زمین کے اندر سے ہوتی ہوئی کیمیائی عمل سے گزرنے کے بعد روپ بدل کر خوشنماء رنگوں والے پھول لئے زمین سے ابھر آتی ہیں،کو سمجھ نہیں پاتے،ایک سادہ سا اصول ہے جس سے جمہوریت اور روپ بدلی آمریت کا فرق کسی حد تک سمجھا جا سکتا ہے ،اگر عوام کی اجتماعی سوچ بالائی سطح سے عمل بن کر پہیہ کو گھما رہی ہے تو یہ ترقی،خوشحالی،قوت اور وقار کے حصول کی گردش ہے جیسے کہ آج کے دور میں ترکی میں اس کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے ،ویت نام اس سے ذیادہ روشن مثال ہے ،ملبے کے ڈھیر سے اٹھنے والا یہ ملک آگے کی جانب بھاگ رہا ہے،اس کے بر عکس اگر بالائی سطح سے محض خالی خولی اعلانات اور اقدام سے صرف کنٹرول کی خواہش کو پورا کرنا ہو تو پھر ایک نازک دور سے دوسرے نازک دور والا معاملہ ہی ہوتا ہے, ،1999ء آتا ہے تو شوکت عزیز نازک حالات کی بنا پر آئی ایم ایف سے سٹینڈ بائی پروگرام اور اس کے بعد تین سال کا پروگرام لیتے ہیں اور بعد ازاںکشکول توڑنے کا اعلان بھی ہو جاتا ہے ، گروتھ 9 فی صد تک چلی جاتی ہے ،پھر شوکت ترین نازک حالات کی بنا آئی ایم ایف سے پروگرام لیتے ہیں ، سارے دور میں گروتھ 3یا 4 فی صد تک رہتی ہے مگربرامدات 25 ارب ڈالر تک چلی جاتی ہیں،گیس سارا سال ملتی رہتی ہے ، تنخواہیں ڈیڑھ سو فی صد بڑھا دی جاتی ہیں،اتنی حقیقت پسندی ضرور کی جاتی ہے کہ کشکول توڑنے کا اعلان نہیںکیا جاتا ،اس دور کے وزیر اور مشیر منہ سے تو نہیں کہتے مگر دل میں مانتے تھے کہ آخری باری ہے ،بڑے دل گردے سے پنجاب ،کے پی کے سے اپنا صفایا ہونے کے عمل کو دیکھتے ہیں،پھر 2013ء آجاتا ہے ،ملک پھر نازک دور میں ہے ۔آئی ایم ایف آ جاتا ہے، گروتھ 6فی صد پر چلی جاتی ہے مگر برامدات نہیںبڑھتی ،زرمبادلہ کے ذخائر اوپر جاتے ضرور ہیں مگر ان کے جاتے ہی خاک اڑنے لگتی ہے ،آج بھی ملک کے حالات نازک ہیں، یہ بات خاک نشیں نہیں کہہ رہا ہے ۔وزیر، مشیر کہہ رہے ہیں، بیان دے رہے ہیں کہ شدت سے پیسے کی طلب ہے، سو پروگرام میں جانے کا اعلان ہو چکا ہے اور کہیںسے کچھ ملے تو خطاب بھی ہو رہے ہیں،19بار پروگرام لینے اورایک نازک دور کے بعد دوسرے نازک دور میں چلے جانے میںجو پر اسرار تعلق ہے یہ سمجھ سے بالا ہے،اس سے ایک بات ضرور ظاہر ہوتی ہے کہ خرابی کا منبع کہیں اور ہے شائد اس بارے میں بات کرتے ہوئے گھبراتے ہیں ، اس طرح کے حالات میںجب پیسے کے بارے میں سیاسی حکومت کے طرف سے بیانات آئیں ،ایک بیانیہ لے کر ’’رگڑنے‘‘ کے عزم ظاہر ہوں تو پھول تو جواب میں آنے سے رہے یہ وہی ماحول ہے جس میں افواہ بکنے والا سودا ہے ،یاد رہے ،اس وقت جو افواہیں جنم لے رہے ہیں ان کا اثر بہت ہی متنوع ہے،جیسے 18ویں ترمیم کے متعلق دبی دبی باتیںہو رہی ہیں،این ایف سی سے جڑی ہوئی بہت سی چیزیں جن کے مضمرات ہیں، ڈیمیز کے بارے میں بھی غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں،رسوائی کا سامان وافر دستیاب ہے،اس کا ایک نتیجہ بے اعتمادی کی صورت میں نکلے گا،تنائو میں بھول جائیں کہ کوئی باہر سے آئے گا، جو کچھ بھی کیا جائے گا وہ محض وقتی ریلیف ہی دے سکے گا، ان کے بارے میں ذہن لاگو کرنا درست عمل ہو گا،بقائے باہمی میں اس کا جواز ہے،یہ کسی ایک کے لئے نہیں ہے، سب کے لئے یکساں مفید ہے ، بہتر ہو گا کہ کنٹرول کی مختلف شکلوں سے بچا جائے،تعمیر صبر آزما عمل ہے اور توڑ سرعت سے انجام پانے وال فعل،اس کے درمیان میں بھی کچھ ہو گا،اس کو پرکھا جائے،اس میں ملک وقوم کی بھلائی ہے،اگلے نازک دور سے بچنا ہے توسنبھل کر چلنا ہے۔

ای پیپر دی نیشن