دہر میں اسمِ محمد  ﷺ سے اجالا کر دے

Oct 30, 2020

نعیم احمد

      شہ عرب و عجم  ﷺ  کے اوصافِ حمیدہ بیان کرنے کی سکت نہ قلم میں ہے نہ زبان میں تاہم عشاقانِ رحمۃ للعالمین اپنی بساط کے مطابق اپنے قلبی جذبات کا اظہار مختلف پیرائوں میں کرتے رہتے ہیں۔ مفکر پاکستان قلندرِ دوراں حضرت علامہ محمد اقبالؒ نے آپؐ کی مدح سرائی کرتے ہوئے فرمایا   ؎
 لوح بھی تُو قلم بھی تُو تیرا وجودالکتاب!
  گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حُباب! 
     مسلمانانِ ہند کے نجات دہندہ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے 25 جنوری 1948ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب میں حضور پاک   ﷺ کی تعریف و توصیف بیان کرنے کے سلسلہ میں اپنی کم مائیگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: میں ایک عاجز ترین‘ انتہائی خاکسار‘ بندۂ ناچیز‘ عظیموں کی بھی عظیم ترین ہستی جناب رسول پاک  ﷺ  کو بھلا کیا اور کیسے نذرانۂ عقیدت پیش کر سکتا ہوں۔‘‘ 
    تحریکِ پاکستان کے رہنما مولانا ظفر علی خان کا مندرجہ ذیل شعر بھی حضور پاکؐ سے عشق کا مظہر ہے   ؎
 دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہی تو ہو ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمہی تو ہو
حضرت حفیظ تائبؒ نے اپنے جذبات کا اظہار کچھ یوں کیا   ؎
 توروحِ زمن‘ روحِ چمن‘ روحِ بہاراں تو جانِ بیاں‘ جانِ غزل‘ جانِ قصیدہ
بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اس مملکت خداداد کو حضور پاک  ﷺ  کا روحانی فیضان قرار دیا تھا۔ اس کرۂّ ارض پر پاکستان ریاستِ مدینہ کے بعد دینِ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والی دوسری ریاست ہے‘ لہٰذا اہلِ وطن کا یہ مقدس فریضہ ہے کہ حضور پاکؐ کی تعلیمات کے مطابق اس کی سیاست‘ معیشت اور معاشرت کو پروان چڑھائیں۔ صد افسوس! ہم ایسا کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ نبیٔ کریم حضرت محمد مصطفیٰؐ نے کفر و شرک میں مبتلا عرب معاشرے کو تبدیل کرنے کی خاطر بتدریج فکری انقلاب برپا کیا جس کے نتیجہ میں محروم اور پسے ہوئے طبقات استحصالی قوتوں کے خلاف صف آراء ہو گئے۔ انسانوں کو شرفِ انسانیت سے محروم کرنے والے باطل نظام کے علم برداروں نے حضور پاکؐ کے برپا کردہ اس انقلاب کی شدید مخالفت کی تاہم ربِّ کائنات کی نصرت سے آپؐ اس وقت کی فرعونی‘ نمرودی اور ہامانی طاقتوں پر غالب آ گئے۔ اللہ تعالیٰ کا بھی یہ قانون ہے کہ جب کسی معاشرے میں ظلم و جبر اور استحصال حد سے گزر جاتا ہے تو وہاں کے کمزور اور بے اختیار لوگوں کو طاقت اور اختیار بخش دیتا ہے۔ تقسیم ہندوستان سے قبل مسلمانوں کو انگریز سامراج اور متعصب ہندو اکثریت کے ہاتھوں جس ذلّت و استحصال کا سامنا تھا اور پھر جس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں ہر دو کے خلاف ایک طویل جدوجہد کی ہمت اور اس کے صلے میں ایک آزاد مملکت عطا فرمائی‘ وہ قرآن مجید کی سورۃ الانفال کی اس آیت 26 کی عملی تفسیر دکھائی دیتی ہے: ’’یاد کرو وہ وقت جب کہ تم تھوڑے تھے۔ زمین میں تمہیں بے زور سمجھا جاتا تھا۔ تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں مٹا نہ دیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں جائے پناہ مہیا کر دی۔ اپنی مدد سے تمہارے ہاتھ مضبوط کئے اور تمہیں اچھا رزق پہنچایا شاید کہ تم شکر گزار بنو۔‘‘
تحریکِ پاکستان کے دوران ہندوستان کے مسلمانوں کا سب سے مقبول نعرہ بھی یہی تھا: ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ … لاالٰہ الّا اللہ‘‘ ، جس کا مفہوم یہ ہے کہ حضور اقدسؐ کی حیات طیبہ اور خلافت راشدہ کے ادوار سے رہنمائی لے کر اس مملکت کو عہد حاضر میں ریاستِ مدینہ کا عملی نمونہ بنایا جائے گا۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ اسی سوچ کا عَلم بردار ہے۔ اس کے پلیٹ فارم سے بار بار اہل وطن کو اس امر کی یاد دہانی کروائی جا رہی ہے کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے جو بذاتِ خود ایک بہت بڑے عاشق رسول ﷺ  تھے‘ اس مملکت کو تحفۂ خداوندی قرار دیا تھا‘ لہٰذا ہم پر فرض عائد ہوتا ہے کہ اپنی زندگیوں کو اسوۂ حسنہ کے سانچے میں ڈھالیں اور والدین و اساتذۂ کرام سیرتِ رسول کریم  ﷺ  کی روشنی میں نئی نسلوں کی کردار سازی کریں۔ اس مقصد کے لیے یہ قومی نظریاتی ادارہ ماہ ربیع الاول میں خصوصی تقریبات منعقد کرتا  ہے تا کہ عوام الناس بالخصوص نسلِ نو کے اذہان و قلوب میں حضور ﷺ  کی محبت کو راسخ اور آپؐ کے نقوشِ قدم کی پیروی کی ترغیب دی جائے۔ اس سلسلے میں 21 اکتوبر کو سکولوں اور مدارس کے طلبا و طالبات کے مابین جبکہ  26 اکتوبر کوکالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات کے مابین ایوان کارکنان تحریک پاکستان لاہور میں مقابلہ ہائے حُسنِِ نعت منعقد کئے گئے۔ 22 اکتوبر کو سکولوں اور مدارس کے طلبا و طالبات کے مابین تقریری مقابلہ بعنوان ’’قرآن ہو بہو ہے سیرت میرے نبیؐ کی… ضامن فلاح کی ہے طاعت میرے نبیؐ کی‘‘ منعقد ہواجبکہ 28 اکتوبر کو کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات کے مابین مقابلہ حُسن تقریر بعنوان ’’رہتی ہیں مری سیرتِ اطہرؐ پہ نگاہیں… دشوار نہیں کوئی بھی رستہ مرے آگے‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔ 24 اکتوبر کو محفل میلاد برائے خواتین کا اہتمام کیا گیا۔گزشتہ روز ٹیلی ویژن پروگرام ’’پیامِ صبح‘‘ کے معروف اینکر پرسن انیق احمد نے ’’سیرتِ نبویؐ اور امتِ مسلمہ کا مستقبل‘‘ کے عنوان سے منعقدہ نشست میں خصوصی لیکچر دیا جس کی صدارت تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے چیئرمین سابق چیف جسٹس میاں محبوب احمد نے کی۔ ماہ نومبر کے پہلے ہفتہ میں سہ روزہ سیرت النبیؐ کانفرنس منعقد ہونے جا رہی ہے۔ یہ کانفرنس 3 اور 4 نومبر کو ایوان کارکنان تحریک پاکستان اور 5 نومبر کو ایوان قائداعظمؒ میں منعقد ہو گی۔ اختتامی مرحلے میں محفل سماع کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید کے مطابق ماہ ربیع الاول کی مناسبت سے یہ تقریبات ہر سال باقاعدگی سے منعقد کی جاتی ہیں۔ ٹرسٹ کے سابق چیئرمین محترم مجید نظامی بھی  نبیٔ آخر الزماں حضرت محمدؐ سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے اور اس سلسلے میں منعقدہ تقریبات میں بطور خاص شرکت کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ  ان شاء اللہ ! یہ مملکت عہد حاضر میں دین اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا نکتۂ آغاز ثابت ہو گی۔ انہوں نے یہ خوش خبری بھی سنائی کہ ایوان قائداعظمؒ میں واقع مادر ملت لائبریری میں ’’سیرت سنٹر‘‘ قائم کیا جا رہا ہے جس میں دنیا بھر سے سیرت طیبہ پر شائع شدہ کتب‘ رسائل و جرائد اور تحقیقی مقالات اکٹھے کئے جائیں گے تا کہ حضور اقدسؐ کی حیاتِ طیبہ پر کام کرنے والے محققین استفادہ کر سکیں۔ 
انیق احمد نے نہایت دل نشیں انداز میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیغمبر اعظم و آخر حضرت محمد مصطفیٰ  ﷺ   اُن زمانوں کے لیے بھی باعثِ رحمت ہیں جو زمانے ابھی آئے بھی نہیں۔ ہمیں اپنے نبی کریمؐ کی ناموس کی حفاظت کرنی چاہیے کیوں کہ حضرت امام مالکؒ کا فرمان ہے کہ جو امت اپنے رسول کی ناموس کی حفاظت نہیں کر سکتی‘ اسے امت کہلانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ مسلمان اہل علم کو مغرب کے نظام ہائے سیاست و معیشت کے مقابلے میں دین اسلام کے زرّیں اصولوں پر مبنی نظام سامنے لانے چاہئیں۔ ہمیں قرآن مجید کے احکامات اور سیرت رسول پاکؐ کے آئینے میں اپنے کردار کا جائزہ لینا چاہیے اور اپنے ہر عمل کو اس معیار پر جانچنا چاہیے کہ اس سے رحمن خوش ہو گا یا شیطان کو خوشی ہو گی۔ عالم اسلام کے موجودہ حالات کے تناظر میں انیق احمد نے سوال کیا کہ آیا حضور پاک  ﷺ  مسلمان ملکوں میں موجود بادشاہتوں یا شخصی آمریتوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہوںگے؟ اس وقت اسلامی دنیا میں عرب و عجم کی تقسیم بڑی واضح ہو چکی ہے۔ امت مسلمہ پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف اگر کوئی مسلمان رہنما اپنی آواز زور دار انداز میں بلند کر رہا ہے تو وہ ترک صدر رجب طیب اردگان ہے‘ اسی لیے مغربی طاقتیں اس کے خلاف ہیں۔ قبل ازیں ممتاز کالم نگار اکرم چودھری نے نشست کے حاضرین کا خیر مقدم کیا جبکہ نظامت کے فرائض تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے ڈپٹی سیکرٹری حافظ محمد عثمان نے عمدگی سے نبھائے۔ 

مزیدخبریں