ربیع الاول کا ماہِ مبارک اپنی پوری آب وتاب سے جلوہ افروز ہے،پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس کی تابانیاں اور جولانیاں دیکھی جا سکتی ہیں، اس ماہ کا تفاخر بجا کہ اس ماہ مقدسہ میں اس ذاتِ اقدس کی ولادت با سعادت ہوئی جنہیں خود خدا ئے بزرگ و برترنے ’رحمت اللعالمین‘‘ کا لقب دیا، جن کی آمد سے عرب کی سر زمین عرب پر انقلاب برپا ہوا،جو نبی معبوث ہوئے تو ان کی نبوت کے ثبوت کیلئے قرآن کا معجزہ عطا ہوا، وہ قرآن جو سراپاِ نعت ہے، وہی نعت جو سنتِ خدا وندی ہے، قرآن مقدس میں ارشادِ ربانی ہے کہ ’بے شک اللہ اور اسکے فرشتے نبی پاک ﷺپر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو ! تم بھی محمدﷺ پر درود و سلام بھیجو‘(سورۃ الاحزاب 56)دوسرے لفظوں میں قرآن اللہ کی طرف سے ،نبی ﷺ کی نعت ہے، گویا نعت گوشاعر ایک طرف حضورﷺ سے اپنے عشق و عقیدت کا اظہار کرتے ہیں تو دوسری طرف وہ سنتِ خدا وندی پر عمل کر تے ہیں،جن کے بارے کہا گیاکہ’ جس نے حضور ﷺکو نہیں دیکھا،وہ قرآن دیکھ لے‘، کیونکہ حضور ﷺ عملی قرآن ہیں، اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ سے جب پوچھا گیا کہ ’حضورﷺ کا اخلاق کیسا تھا؟ تو آپ نے فرمایا ، ’کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟کان خلق رسول القرآن (ابو داؤد شریف)اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر حضور کا ذکر پیرائیۂ نعت میں کیا ہے، حضورﷺ کو قرآن میںایک بار احمد اور چار مقامات پر نامِ محمد سے پکارا گیا، ورنہ اکثر مقامات پر آپ ﷺ کو صفاتی ناموں سے ، مخاطب کیا گیا، کہیں،’مزمل‘، کہیں ’مدثر‘ کہیں’ یٰسین‘ جیسے القاب سے پکارا تو کہیں، ’والضحیٰ، کہہ کر آپ کے رُخِ انور کی قسم کھائی تو کہیں ’واللیل‘کہہ کر آپ کی رات کی طرح سیاہ زلفوں کی قسم کھائی،یہی نعت کا مفہوم و مطلب ہے، نعت کے لفظی معنی صفت و ثناکے ہیں،یہی لفظ حبِ رسولﷺ کیلئے مستعمل ہے، بے شک قرآن مجید میں لفظِ نعت استعمال نہیں ہوا، بلکہ مدحِ رسولﷺ اورذکرِ محبوب کے حوالے سے قرآن بھرا ہوا ہے، تفاسیر اور احادیث کی کتب میں یہ لفظ اپنے لفظی اور اصطلاحی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ بظاہرمحققین کی تحقیق کے مطابق لفظ نعت پہلی بار احادیث کی کتب میں استعمال ہوا ہے، ترمذی شریف میں منقول وہ حدیث حضرت علی کرم اللہ سے منسوب ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ’ آپ ﷺ کی نظر جس پربھی اچانک پڑ جاتی وہ ہیبت زدہ ہو جاتا، آپ ﷺکے اوصاف بیان کرنیوالا( یہاں واصف کی جگہ لفظ ناعث آیا ہے)یہی کہتا ہے کہ آپ ﷺ سے پہلے نہ کوئی آپﷺ جیسا دیکھا،اور نہ ہی آپ ﷺکے بعد آپﷺ جیسا دیکھا‘، محققین کی اکثریت ہجرت ِ مدینہ کے وقت ، حضورﷺ کی ، مدینہ آمد کے وقت، بچیوں کی طرف سے ، دف پر گایا جانے والا استقبالیہ گیت پہلی نعت ہے، لیکن بہت سے محقق ، نعت کی نسبت مکہ سے جوڑتے ہوئے، حضرت ابو طالبؓ کے نعتیہ اشعار کو پہلی نعت کا درجہ دیتے ہیں، اس بحث سے ہٹ کر دیکھا جائے تو نعت نبیﷺ کی شروعات حیران کن طور پر، حضورﷺ کی ولادت سے ہزاروں سال پہلے خود خدا نے کیں، وہ یوں کہ آپ ﷺ کی ولادت سے پہلے تمام الہامی صحیفوں، تورات، زبور، انجیل میں نعت کے ثبوت موجود ہیں،ان صحیفوں میں آپ ﷺ کا ذکر ِ مبارک مختلف حیثیتوں میںہوا ہے، دو پہلو بڑے اہم اور نمایاں ہیں،ایسی بشارتیں جن میں حضور ﷺ کی پیغمبر کی حیثیت سے آمد کی پیش گوئیاں موجود ہیں، دوسری وہ آیات جن میں آپکے اوصاف حمیدہ اور فضائل طیبہ کا ذکر ہوا ہے،جس کی گواہی احادیث سے ملتی ہے، حضرت خلتان بن عاصم سے روایت ہے کہ ’ہم حضو رﷺ کی بارگاہ میں حاضر تھے کہ حضورﷺ نے آنیوالے شخص سے پوچھا،’ تونے توریت پڑھی؟اس نے ہاں میں جواب دیا ، آپ نے پوچھا، ’’ انجیل پڑھی؟ جواب ہاں میں تھا، تب آپ ﷺ نے پوچھا ، ’’توریت اور انجیل میں میرے بارے میں پڑھا؟ اس نے جواب دیا، ’’ہم نے آپﷺ کی صفت و نعت(ثنا)توریت اور انجیل میں پڑھی،آپ ﷺ کی شکل و صورت،اور ہجرت کے مقام کے بارے میں پڑھا ‘،سورۃ الصف کی آیت6 میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام جہاں اپنی نبوت کی تصدیق فرماتے ہیں اس کی تفسیر میں حضرت مودودی فرماتے ہیں کہ’ ۔۔۔اور اس فقرے کو بعد والے فقرے سے ملا کر پڑھنے سے تیسرے معنی یہ نکلتے ہیں کہ ’’میں اللہ کے رسول احمد(ﷺ) کی آمد کی تصدیق کرتا ہوں‘، الاعراف157میں کہا گیا’ جن کا ذکر دونوں(توریت اور انجیل) میں لکھا ہوا ہے‘، قرآن میں مذکور ہے کہ’ آمدِ رسولﷺ سے قبل یہودی، اُسی نبی (ﷺ) کے وسیلہ سے کافروں پر فتح مانگتے تھے تو جب تشریف لائے وہ انکے پاس تو منکر ہو بیٹھے،‘
بلغ العلیٰ بکمالہ کشف الدجیٰ بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ صلو علیہ و الہ
٭…٭…٭