آج مسلمان دنیا کے جس گوشے میں بھی ہیں سرورِ کائنات ،رہبر کامل رحمۃ للعالمین کا یوم ولادت اپنے اپنے طور پر منا رہے ہیں۔اب دنیا کا کوئی ایسا کونا نہیں جہاں مسلمان آباد نہ ہوں۔دنیا میں سورج غروب نہیں ہوتا۔اس کی لمحہ بہ لمحہ گردش جاری رہتی ہے۔یہ نیرنگیٔ فطرت ہے کہ دنیا میں ایک ہی وقت میں کہیں سورج طلوع ہورہا ہوتا ہے کہیں غروب کہیں دوپہر ہوتی ہے تو کہیں سہ پہر ۔ایک ہی وقت میں کہیںفجر کی تو کہیں عشا کی اذان ہورہی ہوتی ہے۔پوری دنیا میں ہروقت خاتم المرسلین کی نبوت کی شہادت دی جارہی ہوتی ہے۔ نبی کریمﷺ سے محبت ہمارے ایمان کا جزو لازم ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب اور عزیز نہ ہو جاؤں۔‘‘ قرآن مجید فرقان حمید کی سورۃ التوبہ کی آیت 24 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ (اے نبیؐ) کہہ دیجئے کہ اگر تمہیں اپنے باپ اور اپنے بیٹے اور اپنے بھائی اور اپنی بیویاں اور اپنے رشتہ دار اور وہ مال جو تم نے بڑی محنت سے کمائے ہیں اور جمع کئے ہیں اور اپنے وہ کاروبار جو تم نے بڑی مشقت سے جمائے ہیں اور جس میں تمہیں کساد کا اور مندے کا خوف رہتا ہے اور اپنی وہ شاندار عمارتیں جو تم نے بڑے ارمانوں کے ساتھ تعمیر کی ہیں جو تمہیں بڑی بھلی لگتی ہیں، اگر یہ سب چیزیں تمہیں محبوب تر ہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے تو جاؤ انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ سنا دے اور اللہ ایسے فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘؎
یہ شہادت گہہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
آج بین المذاہب ہم آہنگی، اسلامو فوبیا کا شکار نظر آتی ہے۔عالمی سطح پر آزادیٔ اظہار کی بات کی جاتی ہے مگر اس کی بھی حدود ہیں۔آپ کسی کے عقیدے اور ایمان پر حملہ آور ہوکر آزادی ٔ اظہار کی آڑ میں نہیں چھپ سکتے۔دنیا میں کہیں قرآن کریم کی بے حرمتی کی جاتی ہے تو کہیں دنیا کی سب سے برگزیدہ ہستی کے خاکے بناکر اُمت ِمسلمہ کے سینے پر خنجر چلائے جاتے ہیں۔آپؐ سے محبت مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔جب بھی کوئی نبی کریمﷺ کی شان میں گستاخی کرے گا تولازماً مسلمانوںکی طرف سے شدید ردِ عمل آئے گا۔یہ فطری عمل ہے شدت پسندی کا طعنہ دینا درست نہیں، کیونکہ کوئی بھی اپنی عقیدتوں کے مراکز کے خلاف گستاخی اور توہین برداشت نہیں کرتا۔
اسلام امن سلامتی اور برداشت کا دین ہے۔جارحیت کا اس میں شائبہ تک نہیں مگر اپنے دفاع میں جب جارحیت کی جائے تو پھر ایک مومن اپنی جان دینے سے خوفزدہ ہوتا ہے نہ ظالم وجارح کی جان لینے سے گریز کرتا ہے۔ پوری مسلم دُنیا فرانس میں توہین آمیز اور گستاخانہ خاکوں پر احتجاج کررہی تھی کہ اسی دوران فرانس کے صدر کا خاکوں کے حق اور اسلام کے خلاف بیان آگیا،جس پر اہل ایمان کی طرف سے غم وغصے کا اظہار فطری امر ہے ۔
مغرب میں اسلام دشمنی کے مظاہر کے خلاف آج اسلامی دنیا متحد ہوتی نظر آرہی ہے۔پاکستان اور ترکی نے اس پر شدید ترین ردعمل کا اظہار کیا۔حکومتی اور عوامی سطح پر ردعمل میں سے مغربی ملکوں اور خصوصاًفرانس تک واضح پیغام پہنچ گیا ہوگا۔ترکی نے تو فرانسیسی سفیر کو نکال دیا۔اسلامی دنیا میں وسیع پیمانے پر فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جارہا ہے۔فرانس کے حکمران اگر گستاخوں کا تحفظ کررہے ہیں تو یہ قابل مذمت اور قابل گرفت رویہ ہے۔حکومت پاکستان نے اسی تناظر میں آج سے ہفتہ عشق رسول منانے کا اعلان کیا ہے۔وزیر اعظم عمران خان اسلامو فوبیا کے خلاف واضح نقطۂ نظر رکھتے ہیںانکی طرف سے مسلم ممالک کے سربراہوں کو خط کے ذریعے مشرکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کو کہا گیا ہے جس کے تحت دنیا پر واضح کیا جائے کہ ہم مسلمان نبی پاک ﷺسے کس درجہ محبت کرتے ہیں اور آپﷺ کی شان میں سر مو گستاخی قابل قبول نہیں ہے۔فرانس میں ایک ٹیچر کے توہین آمیز خاکے ہی اس بدبخت کی موت کا سبب بن گئے۔اس پرصدر میکرون نے کہا تھا کہ سیموئیل پیٹی نامی استاد ’اس لیے قتل کیا گیاکہ فرانس کے مسلمان ہمارے مستقبل پر قبضہ کرناچاہتے ہیں،صدر میکرون کے اس بیان نے کہ فرانس پیغمبرِ اسلام کے خاکے بنانا نہیں چھوڑے گا‘جلتی پر تیل کا کام کیا۔
فرانس کے صدرعمانوئیل میکرون نے پیغمبرِ اسلام کے خاکے شائع کرنے کا دفاع کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ مذہب اسلام پوری دنیا میں ’بحران کا مذہب‘ بن گیا ہے اور اْن کی حکومت دسمبر میں مذہب اور ریاست کو الگ کرنے والے سنہ 1905 کے قوانین کو مزیدسختی سے لاگو کرے گی۔اسی تناظر میں دیے گئے صدر میکرون کے بیانات کے بعد بہت سے مسلمان ممالک خاص کر مشرقِ وسطی میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم نے زور پکڑا۔فرانس کی وزات خارجہ کا کہنا ہے کہ فرانس کی مصنوعات کے بائیکاٹ کے ’بے بنیاد‘ اعلانات کو ’شدت پسند اقلیت کی جانب سے ہوا دی جا رہی ہے۔‘یہ بیان بذات خود نفرت انگیز اور اشتعال دلانے والا ہے۔
حالیہ دنوں میں چند ایسی ویڈیوز سوشل میڈیا سائٹس پر پوسٹ کی گئی ہیں جن میں کویت، اْردن اور قطر سمیت دیگر ممالک کے کاروباری حضرات کو اپنی دکانوں سے فرانسیسی مصنوعات کو ہٹاتے اور ان مصنوعات کو دوبارہ فروخت نہ کرنے کا عزم کرتے دکھایا گیا ہے۔ پاکستان میں گذشتہ 72 گھنٹوں سے فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا ٹرینڈ ٹاپ پر ہے۔ فرانس کے صدر مسلمانوں سے بائیکاٹ ختم کرنے کی اپیل کررہے ہیں مگراپنے کئے پر نہ تو نادم ہیںاور نہ ہی معذرت کرنے پرآمادہ ہیں،ان کی یہ ہٹ دھرمی حکومتوں کی سطح پر ترکی کی طرح فرانس سے قطع تعلق کرنے پر مجبور کرسکتی ہے جو مسلم اورغیر مسلم تقسیم کی بنیاد بنے گی۔