معزز قارئین ! آج12 ربیع الاوّل 1442 ( ہجری ) ہے ۔ ’’عید میلاد اُلنبی ؐ ‘‘۔ یوں تو ہم مسلمان فجر (نور کے تڑکے ) سے عشاء ( شب کوری ) تک اپنے آقا ، سرورِ کائنات ، پیغمبر اِنسانیت‘‘ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کو یاد کرتے رہتے ہیں لیکن، عید میلاد اُلنبیؐ کی کیا ہی بات ہے؟ دراصل یہ عید تو یکم ربیع الاوّل ہی سے شروع ہو جاتی ہے ۔ قیام پاکستان سے قبل مَیں نے لڑکپن میں ’’ مشرقی پنجاب‘‘ کی سِکھ ریاست نابھہؔ میں اپنے والد صاحب ’’ تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ ) کارکن ‘‘ رانا فضل محمد چوہان اور دو چچائوں رانا فتح محمد چوہان اور رانا عطاء محمد چوہان کے ساتھ عید میلاد اُلنبیؐ کے جلوس میں شرکت کی تھی ۔نعت خواں حضرات بلند آواز سے پنجابی کی نعت پڑھ رہے تھے جس کا مطلع آج بھی میرے کانوںمیں گونج رہا ہے …؎
’’سارے جگ توں نِرالِیاں ، دِسدِیاں نَیں
مدنی سرکار ؐدِیاں گلیاں!‘‘
…O…
ہجرت کے بعد 1947ء میں ہمارا خاندان پاک پنجاب کے شہر سرگودھا میں آباد ہُوا ۔ مَیں 1953ء میں نویں جماعت کا طالبعلم تھا جب میرے والد صاحب مجھے کسی محفل میلاد میں لے جاتے تھے ۔ محفل میلاد کے اختتام سے پہلے اہل محفل جب نعت خواں حضرات کے ساتھ مل کر سلام پیش کرتے تو مجھے کئی بار محسوس ہُوا کہ ’ ’ حضور پُر نُور صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم محفل میں تشریف لے آئے ہیں ۔ مَیں نے 1956ء میں میٹرک پاس کِیا اور اردو میں پہلی نعت لکھی جو لائل پور ( موجودہ فیصل آباد ) کے روزنامہ ’’ ڈیلی بزنس رپورٹ ‘‘ میں شائع ہُوئی، پھر مَیں نے اردو اور پنجابی میں باقاعد ہ شاعری شروع کردِی اور کئی حمد ہائے باری تعالیٰ ، نعت ہائے رسول مقبول ؐ ، اہل بیت ؓ و اولیائے کرامؒ کی منقبتیں لکھی ہیں لیکن فی الحال آپ غوثِ اعظم شیخ عبداُلقادر جیلانی ؒ، خواجہ غریب نواز، نائب رسول ؐ فی الہندحضرت معین اُلدّین چشتی اجمیریؒ ، نامور صوفی حضرت شرف اُلدّین مصلح سعدی شیرازیؒ اور عاشقِ رسول علامہ محمد اقبالؒ کا ہدیۂ نعت قبول کریں ۔
’’حضرت غوثِ اعظمؒ !‘‘
’’غلام حلقہ بگوش رسولؐ و ساداتم!
زہے نجات نمودن حبیب آیاتم!‘‘
…O…
ترجمہ: ۔ ’’مَیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم اور جملہ سادات کا دست بستہ غلام ہُوں۔ ہماری نجات کے لئے یہ کتنی محبوب نشانیاں موجود ہیں !‘‘
دِلم زحب محمدؐ پراست و آلِ مجید!
گواہ حال منست اِیں ہمہ حکایاتم!‘‘
ترجمہ: ۔ ’’ میرا دِل حُبِ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم اور آپ ؐ کی برگزیدہ آل کی محبت سے معمور ہے ۔ میرا حال اور کیفیت میرے اِس فلسفے اور عقیدت پر گواہ ہے !‘‘۔
’’ خواجہ غریب نواز ؒ !‘‘
’’ طفیلِ ذات ِ توؐ ہژدہ ہزار عالم ازاں شُد!
کہ پیشِ بحر ندارد ، وجود قطرۂ شبنم!‘‘
…O…
ترجمہ:۔ آپ ( صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم) کے طفیل اٹھارہ ہزار عالم پیدا ہُوئے ۔ چنانچہ جس طرح سمندر کے سامنے (بے چارہ ) قطرۂ شبنم اپنے وجود کا کیا اظہار کرے ؟‘‘
’’بعذر خواہی مابر کُشائی لب بشفاعت!
کہ دِل پَرست زدرُود لبِ تو حقہ مریم ؑ!‘‘
…O…
ترجمہ:۔ اے شافعی محشر ؐ ، ہمارے گناہوں کی شفاعت فرمانا کہ میرا دِل آپؐ کے حقہ مریم ؑ جیسے لبوں کی محبت سے پُر ہے!‘‘۔
’’شیخ سعدی شیرازیؒ !‘‘
’’بَلَغَ الْعُلیٰ بِکَمالِہٖ کَشَفَ الدُّ جیٰ بِجَمَالِہٖ
حَسُنَتْ جَمِیْعُ خِصَالِہٖ صَلوُّ عَلَیْہِ وَ آ لِہٖ ‘‘
…O…
ترجمہ: ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کمال کی وجہ سے بلندی پر پہنچے۔اپنے جمال سے تاریکیوں کو روشن کِیا۔ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب ہی اوصاف بھلے ہیں ۔آپؐ پر اور آپؐ کی اولاد پر درُود پڑھو‘‘۔
’’علامہ محمد اقبال ؒ !‘‘
’’ لوح بھی تو ، قلم بھی تو ، تیرا وجود الکتابؔ!
گنبدِ آبگینہ رنگ ، تیرے محیط میں حباب!‘‘
…O…
’’عالمِ آب و خاک میں ، تیرے حضورؐ کا فروغ!
ذرہ ٔریگ کو دیا، تو ؐنے طلوعِ آفتاب! ‘‘
…O…
معزز قارئین ! ۔ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم سے مخاطلب ہو کر علاّمہ اقبال کہتے ہیں کہ ’’ اے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم !۔ آپ ؐ ہی لوح ہیں آپ ؐ ہی قلم ہیں ۔ علم الٰہی صرف ، آپ ؐ کے ذریعے سے سب پر آشکار ہُوا۔ آپؐ ہی کا وجود مبارک قُرآن مجید ہے ، اس لئے کہ آپ ہی خدا کے احکامات کو اِنسانوں تک پہنچانے کا ذریعہ بنے ، یہ شیشے جیسا گنبد ہے جسے ، ہم لوگ آسمان کہتے ہیں کہ آپ ؐ کے سمندر میں ایک بلبلے کی حیثیت رکھتا ہے !‘‘۔
’’خواجہ جی بنے مورے میت رہے !‘‘
بھارتی صوبہ راجستھان کے شہر اجمیرؔ میں آباد میرے آبائو اجداد نے خواجہ غریب نواز ، نائب رسولؐ فی الہند حضرت مُعین اُلدّین چشتی ؒ کے دست ِ مبارک پر اسلام قبول کِیا تھا۔ میرے والدین نے بچپن ہی میں مجھے خواجہ صاحب ؒ کی عظمت اور اُن سے محبت کا درس دے دِیا تھا ۔مَیں نے 1973ء میں لاہور سے اپنا روزنامہ ’’ سیاست ‘‘ جاری کِیا ۔ 1980ء کے اوائل میں میرے خواب میںخواجہ غریب نواز ؒمیرے گھر رونق افروز ہُوئے ۔آپؒ نے میری طرف مُسکرا کر دیکھا ۔ مَیں لیٹا ہُوا تھا اور جب مَیں نے اُٹھ کر اُن کی خدمت میں سلام عرض کِیا تووہ مُسکراتے ہُوئے غائب ہوگئے۔ آنکھ کُھلی تو مَیں نے اشارے سے اپنی اہلیہ مرحومہ (نجمہ اثر چوہان) کو جگایا اور اُن سے پانی مانگا۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’ہمارے بیڈ روم میں تو خُوشبو پھیلی ہوئی ہے؟ ‘‘۔ پھر خواجہ غریب نوازؒ کی برکتوں سے میرے مختلف صدور اور وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے کئی غیر ملکی دوروں کے لئے دروازے کُھل گئے ۔ ستمبر 1983ء میں مجھے خواب میں کسی غیبی طاقت نے دلدل سے باہر نکالا اور مجھے بتایا کہ ’’ تُم پر مولا علیؓ کا سایۂ شفقت ہے!‘‘۔
’’…مدنی سرکار دِیاں گلیاں !‘‘
معزز قارئین ! ستمبر 1991ء میں مجھے صدرِ پاکستان غلام اسحاق خان کے ساتھ دورۂ سعودی عرب میں خانۂ کعبہ کے اندر جانے کی سعادت ہُوئی اور مجھے دو صحافی دوستوں کے ساتھ ، پاکستانی سفارتخانہ کی گاڑی میں مدینہ منورہ میں گاڑی سے اُتر کر ، پیدل چل کر اور زمین پر بیٹھ کر ’’ سارے جگ توں نِرالیاں ، ’’مدنی سرکارؐ دِیاں گلیاں ‘‘ دیکھنے کا شرف حاصل ہُوا۔ فی الحال آپ میری نعت کے تین شعر ملاحظہ فرمائیں …؎
’’یوں ضَو فِشاں ہے ، ہر طرف ، کردار آپ ؐ کا!
اَرض و سماء ، ہے حلقۂ انوار ، آپؐ کا!
…O…
حقّ کی عطا سے ، صاحبِ لَوح و قلم ہیں آپؐ !
قُرآنِ پاک بھی ہُوا، شَہہ کار آپؐ کا!
…O…
مولا علی ؓ و زَہرا، حسن ؓ اور حُسین ؓسے!
عرشِ برِیںسے کم نہیں ، گھر بار آپؐ کا!‘‘