کراچی میں ہر طرف دھول ،گندگی اور بدبو،تاریخی عمارتیں تباہ


کراچی (نیوزرپورٹر+این این آئی+ نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ نے تجوری ہائٹس گرانے کا حکم دے دیا۔ عدالت عظمی نے کمشنر کراچی کو انہدام کی نگرانی کرنے کا حکم دیدیا۔ جمعہ کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں ریلوے اراضی پر تجوری ہائٹس کی تعمیر کے کیس کی سماعت ہوئی۔ دوران سماعت رضا ربانی ایڈووکیٹ نے موقف دیا کہ میرے موکل جگہ خالی کرنے کو تیار ہیں۔ الاٹیز سے معاملات حل کرنے اور سٹرکچر منہدم کرنے کیلئے مہلت چاہئے۔ سپریم کورٹ نے تجوری ہائٹس گرانے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے ایک ماہ میں سٹرکچر گرانے کا عمل مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے بلڈر کو ریکارڈ اور دیگر سامان نکالنے کی اجازت دے دی۔ سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ الاٹیز کو تین ماہ میں معاوضہ ادا کرکے رپورٹ پیش کی جائے۔  دوسری طرف سپریم کورٹ آف پاکستان نے ہندو جم خانہ کی عمارت کو اصل حالت میں بحال رکھنے کا حکم دیا ہے۔ جمعہ کو چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں بینچ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ہندو جم خانہ (ناپا) خالی کرانے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ دورانِ سماعت سیکرٹری کلچر سندھ، کمشنر کراچی و دیگر حکام عدالت میں پیش ہوئے۔ ثقافتی عمارتوں کی مناسب دیکھا بھال نہ ہونے پر چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد سیکرٹری کلچر پر برہم ہو گئے۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس میں کہا کہ شہر میں برنس روڈ، پاکستان چوک سمیت ثقافتی عمارتوں کی بھر مار تھی، یہ ورثہ کسی اور ملک میں ہوتا تو وہاں کی سیاحت کہاں سے کہاں پہنچ جاتی، برنس روڈ پر جا کر دیکھیں ہیرٹیج بلڈنگ کا کیا حال کیا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی دیکھیں، شہر میں ہر طرف دھول، مٹی، گندگی اور بدبو ہے، روم میں جا کر دیکھیں ہیرٹیج کی کیا اہمیت ہے، ایک ایک اینٹ کو محفوظ رکھتے ہیں، سندھ سیکرٹریٹ کے پیچھے دیکھیں کیسی کیسی خوبصورت عمارتیں تھیں، سب تباہ کر دی گئیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آج ایسی بلڈنگ بنانے کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا، آپ تو کاپی بھی نہیں کر سکتے، سارے سیکرٹریز اپنے دفاتر میں بیٹھے رہتے ہیں۔ ان کو کیا پتہ کلچر کیا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ موہن جو داڑو اور مکلی سے لوگ اینٹیں تک اٹھا کر لے گئے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ہر عبادت کی جگہ کا احترام کرتے ہیں، ہندو جم خانہ کی ثقافتی حیثیت کو کوئی نقصان نہیں ہونا چاہئے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ناپا کو چلانے والے بھی پڑھے لکھے ہیں، ثقافتی عمارت کا تحفظ یقینی بنائیں گے۔ انہوں نے حکم دیا کہ ہندو جم خانہ کی ڈرون فوٹیج بنائیں، عدالت میں بڑی سکرین پر دیکھیں گے کہ عمارت کی کیا صورتِ حال ہے۔ دوان سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کمشنر کراچی کہاں ہیں۔ عدالت کی جانب سے برہمی کے اظہار پر کمشنر کراچی نے معذرت کی۔

ای پیپر دی نیشن