اسلام آباد (خبرنگار خصوصی+ نیوز رپورٹر) وزیر اعظم نے ہدایت کی ہے کہ عوام کے جان و مال کے تحفظ اور ریاست کی حکمرانی کو قائم رکھنے کے لیے تمام اقدامات یقینی بنائیں جائیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید، نیول چیف امجد خان نیازی، ایئرچیف ظہیر احمد بابر، ڈی جی آئی بی، ڈی جی ایف آئی اے، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر داخلہ شیخ رشید، فواد چوہدری، پرویز خٹک ، نورالحق قادری نے شرکت کی۔ کمیٹی کو ملکی داخلی صورتحال اور ٹی ایل پی کے احتجاج کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی گروپ یا عناصر کو امن عامہ کی صورتحال بگاڑنے اور حکومت پر دبائو ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ وزیراعظم آفس کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی نے احتجاج کے دوران جان و مال کو نقصان پہنچانے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ قانون کی عملداری میں خلل ڈالنے کی مزید کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔ قومی سلامتی کمیٹی نے پولیس کی پیشہ ورانہ کارکردگی اور تحمل کو خراج تحسین پیش کیا جن میں 4 اہلکار شہید اور 400 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ قومی سلامتی کمیٹی نے اعادہ کیا کہ تحمل کا مطلب ہرگز کمزوری نہ سمجھا جائے، پولیس کو جان و مال کے تحفظ کے لئے دفاع کا حق حاصل ہے، ریاست پر امن احتجاج کے حق کو تسلیم کرتی ہے۔ تاہم ٹی ایل پی نے دانستہ طور پر سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچایا اور اہلکاروں پر تشدد کیا، یہ رویہ قابل قبول نہیں۔ قومی سلامتی کمیٹی نے کہا کہ ریاست آئین و قانون کے دائرہ کار میں رہ کر مذاکرات کرے گی اور کسی قسم کے غیر آئینی اور بلا جواز مطالبات تسلیم نہیں کرے گی۔ وزیر اعظم اور قومی سلامتی کمیٹی ممبران نے امن عامہ کی صورتحال برقرار رکھنے کے دوران شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کے لیے تعزیت کی اور کہا کہ شہید اہلکاروں کے اہل خانہ کو معاوضہ اور ان کی کفالت یقینی بنائی جائے گی۔ اعلامیہ کے مطابق وزیراعظم نے کہا کہ حکومت قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی ہر قسم کی امداد اور پشت پناہی جاری رکھے گی۔ ریاست کی رٹ ہر صورت قائم رکھیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی پچھلی حکومت یا وزیر اعظم نے ناموس رسالتﷺ کے تحفظ اور اسلاموفوبیا کے تدارک کے لئے اندرونی اور بین الاقوامی سطح پر اتنا کام نہیں کیا جتنا اس حکومت نے کیا۔ موجودہ حکومت نے کامیابی سے ان ایشوز کو اقوام متحدہ، او آئی سی، یورپین یونین اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر اجاگر کیا۔ رحمت للعالمین اتھارٹی کے قیام کا بنیادی مقصد بھی اسلام کے خلاف منفی پراپیگنڈے کو رد کرنا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی نے کالعدم تنظیم کی طرف سے ناموس رسالت کے غلط اور گمراہ کن استعمال کی شدید مذمت کی اور کہا اربوں مسلمان حضرت محمدﷺ کی ذات اقدس سے محبت کرتے ہیں اور عقیدت رکھتے ہیں تاہم کسی بھی دوسری اسلامی ریاست میں املاک اور عوام کو نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ دنیا بھر میں پاکستان کا منفی تاثر گیا ہے۔ تنظیم نے ماضی میں بھی متعدد بار پر تشدد احتجاج کا راستہ اختیار کیا جس سے ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچا اور ریاست کی حکمرانی کو چیلنج کیا گیا۔ قومی سلامتی کمیٹی نے متفقہ طور پر اس عزم کو دہرایا کہ ریاست کی خودمختاری کو کسی بھی اندرونی یا بیرونی خطرات سے محفوظ رکھا جائے گا۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ کالعدم تنظیم سے مذاکرات نتیجہ خیز نہیں ہو سکے، حکومت اپنے وعدوں پر قائم ہے، وزیراعظم عمران خان قوم کو صورتحال سے آگاہ کریں گے، مارچ کے منتظمین اپنے مرکز واپس جانے کا وعدہ پورا کریں، پنجاب میں پولیس کو رینجرز کے ماتحت کر دیا ہے اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت رینجرز کو تمام اختیارات حاصل ہیں، صورتحال پر وزیراعظم قوم کو اعتماد میں لیں گے۔ ایف آئی اے کو سوشل میڈیا پر قابل اعتراض مواد کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کمیٹی کا اجلاس 2 گھنٹے تک جاری رہا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ حکومت کی رٹ اور امن و امان کو ہر صورت برقرار رکھا جائے گا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ مذاکرات دوبارہ ہوں گے جس میں حکومت کی نمائندگی میں اور نور الحق قادری کریں گے۔ آرٹیکل 147 کے تحت پنجاب پولیس کو رینجرز کے ماتحت کر دیا گیا ہے، پنجاب حکومت انہیں ضرورت کے مطابق کہیں بھی بروئے کار لا سکتی ہے۔ لاٹھی بردار پولیس اہلکاروں پر گولیاں چلائی گئیں، اس صورتحال میں حکومت نے پولیس کو رینجرز کے ماتحت کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے مذاکرات کے بعد جس معاہدے پر دستخط کئے تھے حکومت اس پر قائم ہے۔ لیکن جی ٹی روڈ کھولنے اور مرکز واپس جانے کا جو وعدہ دوسرے فریق نے کیا تھا وہ پورا نہیں کیا گیا۔ اگر مذاکرات کسی نتیجہ پر پہنچے تو قوم کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت، ہانگ کانگ، جنوبی کوریا، جنوبی افریقہ، امریکا اور برطانیہ سمیت مختلف ممالک سے واٹس ایپ اور سوشل میڈیا پر مواد اپ لوڈ کیا جا رہا ہے۔ اس صورتحال سے دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ میں توقع رکھتا ہوں کہ قومی نقصان نہ ہو، سعد رضوی سے بات چیت ہو رہی ہے، لاہور میں بھی ان سے مذاکرات ہوئے تھے لیکن مذاکرات ابھی نتیجہ خیز نہیں ہو سکے۔ وزیراعظم آج یا کل قوم سے خطاب کریں گے۔ ہم اپنے معاہدے پر قائم ہیں۔ میں نے وزیراعظم کی ہدایت پر دستخط کئے ہیں۔ سعد رضوی کے ساتھ بھی ہماری بات چیت چل رہی ہے۔ ضروری نہیں کہ میڈیا پر ساری باتیں کی جائیں۔ سب کو معلوم ہے کہ فرانس کا سفیر ادھر نہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ کالعدم تنظیم کا ایجنڈا ملک کے اندر فساد پھیلانا ہے۔ جمعہ کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کالعدم تنظیم کے احتجاج میں اب تک 5 پولیس اہلکار شہید جب کہ 49 زخمی ہو چکے ہیں۔ موجودہ صورتحال کے تناظر میں علمائے کرام آگے آئیں اور اپنا کردار ادا کریں، ہم سڑکوں پر خون بہتا نہیں دیکھنا چاہتے، ہم امن کے ذریعے معاملات حل کرنا چاہتے ہیں۔ ریاست کو کمزور نہ سمجھا جائے، ہم نے بڑی بڑی دہشت گرد تنظیموں کو شکست دی ہے، اس طرح کے جتھے ریاست کے آگے کھڑے نہیں ہو سکتے، نہ ہی ہم انہیں برداشت کریں گے۔ جتنا صبر کر سکتے تھے وہ کر رہے ہیں، ریاست نے 22 کر وڑ عوام کو دیکھنا ہے، احتجاج کے باعث جی ٹی روڈ پر ٹرکوں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں، تاجر اور دکاندار حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں، پرامن احتجاج ہر ایک کا حق ہے لیکن اگر ٹی ایل پی کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ ڈنڈے اٹھا کر، لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچا کر اور پولیس والوں کو زخمی اور شہید کر کے اپنا مطالبہ منوالیں گے تو ایسا نہیں ہوگا، طاقت سے مطالبات نہیں منوائے جا سکتے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ملک میں امن وامان کی صورتحال خراب ہو، ہم مذاکرات کر رہے ہیں کہ یہ لوگ واپس جائیں۔ ہم نے ٹی ٹی پی سے بھی مذاکرات کئے ہیں، ہم تمام گروہوں سے مذاکرات کرتے ہیں، مذاکرات آئین اور قانون کے تحت ہوں گے، فیصلے ہمارے عدالتی نظام کے مطابق ہوں گے، جب ملک معاشی استحکام کی طرف جاتا ہے اور ڈالر نیچے اور سٹاک مارکیٹ اوپر جانا شروع ہوتی ہے تو اس طرح کا تصادم شروع کر دیا جاتا ہے، ہم اس معاملے کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہے ہیں، اس طرح کے فتنے اسلام کے خلاف سازش ہیں، ایسے شر انگیز اقدامات زیادہ دیر نہیں چل سکتے۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ میڈیا اس احتجاج کی رپورٹس دے سکتا ہے لیکن غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے پر پابندی عائد کی ہے۔