کراچی ( کامرس رپورٹر)ٹائرز کی اسمگلنگ اور سگریٹ کی غیرقانونی تجارت پاکستان کے قومی خزانے کو سالانہ 130ارب روپے کا نقصان پہنچارہی ہے۔ انڈسٹری زرائع کے مطابق ٹائرز کی انڈر انوائسنگ، اسمگلنگ اور غیرقانونی تجارت سے قومی خزانہ کو سالانہ 50ارب روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے جبکہ سگریٹ کی غیرقانونی تجارت سالانہ 80ارب روپے کے خسارے کا سبب بن رہی ہے۔ٹائرز کی غیرقانونی تجارت قومی خزانے کے ساتھ ٹائر کی مقامی صنعت کی سرمایہ کاری کے لیے بھی خطرہ بنی ہوئی ہے۔ پاکستان میں سالانہ 300ارب روپے مالیت کے ٹائرز اسمگل کرکے لائے جارہے ہیں جن سے قومی خزانے کو سالانہ 50ارب روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ انڈسٹری کے ماہرین کے مطابق پاکستان کی معیشت کو اسمگلنگ کی شکل میں نقصان پہنچانے والی سرفہرست اشیاء میں ٹائر بھی شامل ہے جس سے نہ صرف مقامی صنعت بلکہ قومی خزانہ بھی بھاری نقصان اٹھارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ٹائر کی اسمگلنگ میں 60فیصد تک کمی لائی جائے تو مقامی صنعت کو بھی فائدہ ہوگا جبکہ قانونی طریقے سے درآمد کی شکل میں حکومت کا ریونیو بڑھے گا جس کی موجودہ معاشی صورتحال میں اشد ضرورت ہے۔دوسری جانب قومی خزانہ کو سگریٹ کی غیرقانونی تجارت سالانہ 80ارب روپے کا نقصان پہنچارہی ہے۔ ملکی معیشت کے ساتھ سگریٹ کی صنعت میں کی جانے والی قانونی سرمایہ کاری بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ ماہرین کے مطابق سگریٹ پر ٹیکسوں کی بھرمار اور غیرقانونی تجارت میں ملوث عناصر کے خلاف تادیبی کارروائی نہ کیے جانے کی وجہ سے غیرقانونی سگریٹ کا مارکیٹ شیئر تیزی سے کم ہورہا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں سالانہ 80ارب سگریٹ اسٹکس فروخت کی جاتی ہیں ہر پانچ سگریٹ میں سے دو سگریٹ غیرقانونی طور پر فروخت کی جارہی ہیں جس کی وجہ سے سگریٹ کی مارکیٹ میں غیرقانونی تجارت کا حجم 40فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ سگریٹ کی غیرقانونی تجارت کی روک تھام کے لیے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم نافذ کیا گیا ہے تاہم سگریٹ انڈسٹری کی چند کمپنیاں ہی اس نظام کے زیر نگرانی لائی گئی ہں اور بڑی تعداد میں سگریٹ مینوفیکچررز تاحال ٹریک اینڈ ٹریس کی ڈیجیٹل نگرانی کے نظام سے باہر ہیں۔ماہرین کے مطابق حکومت ٹائرز اور سگریٹ کی غیرقانونی تجارت کی روک تھام کے ذریعے عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالے بغیر مالی وسائل میں اضافہ کرسکتی ہے جس سے معیشت کو درپیش چیلنجز کم کرنے میں مدد ملیگی۔ٹائر اور سگریٹ کی غیرقانونی تجارت سے چوری ہونے والے 130ارب روپے کے ٹیکسز وصول کرکے سیلاب سے متاثرہ کمیونٹیز کی بحالی اور انفرااسٹرکچر کی تعمیر پر خرچ کیے جاسکتے ہیں۔