الحمد اللہ پاکستان 21 اکتوبر 2022کو فنانشن ایکشن ٹاسک فورس تنظیم کی گرے لسٹ سے بھی نکل آیا۔ اس بات پر ہمیں اللہ پاک کی ذات کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ہمیں کس طرح اس لسٹ میں کن عوامل اور کن ممالک کے اثر و رسوخ کے تحت ڈالا گیا، تاکہ ہم مستقبل میں ان قوتوں پر نظر رکھ سکیں۔ بلکہ وہ مزید ہمیں کوئی بھی نقصان نہ پہنچا سکیں۔ 37 ممبر ممالک کی اس تنظیم جسے FATF کے نام سے پکارا جاتا ہے، اس کا کام دنیا بھر میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لئے فنانس کرنے والے ممالک پر نظر رکھنا ہوتی ہے۔ اس کے ایکسپرٹ گروپس میں اقوام متحدہ کے 6 ممبرز اور ورلڈ بینک بھی شامل ہے۔ پاکستان کو اس تنظیم نے سب سے پہلے 2008ء میں گرے لسٹ میں ڈالا مگر 2009ء میں پاکستان اس مشکل صورتحال سے نکل آیا۔ اس وقت بھی پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن پر کھڑا تھا اور اپنی قیمتی جانیں قربان کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی سرزمین بین الاقوامی قوتوں کے لئے استعمال بھی کروا رہا تھا مگر پھر بھی پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا گیا، جس کا مقصد تھا کہ پاکستان کو مزید ڈرایا جاسکے۔ پاکستان کی تو پوزیشن ہی دنیا کے باقی ممالک سے مختلف ہے، جو ملک امریکہ اور یورپی یونین کیساتھ مل کر افغانستان میں جنگ لڑ رہا ہو، وہاں کون پیسہ لا رہا تھا اور کہاں خرچ کر رہا تھا، یہ سوال تو خود FATF پر نتا ہے۔ بہر حال دوسری بار پاکستان کو 2012ئ میں گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا۔ اس لئے کہ دہشت گردی کی اس جنگ میں جو افراد امریکہ اور بین الاقوامی قوتوں کو مطلوب تھے وہ اْنہیں مکمل طور پر نہ مل سکے تھے۔ حالانکہ 2011ئ کے دوران پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کو سبوتاڑ کرتے ہوئے ایبٹ آباد کے اندر اسامہ بن لادن کو بھی مار ڈالا گیا تھا۔ اس بار پاکستان چار سال بعد 2015ء میں گرے لسٹ سے نکلا اور پھر 2018ء میں فلسطین میں جو حالات پیدا ہوئے اس پر پاکستان آواز اْٹھاتا رہا۔ جب کہ دوسری جانب کشمیر میں بھارت جو کچھ جموں و کشمیر میں ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے وہ بین الاقوامی برادری دیکھتے ہوئے بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور چنانچہ اس بار تو بھارت کی فرانس کے ساتھ دوستی نے ہمیں جون 2018ئ میں تیسری بار FATF کی گرے لسٹ میں ڈلوایا اور ہمیں دبائوں میں رکھا۔ پاکستان کو 27 نکات دیئے گئے کہ ان پر عملدرآمد کروائیں، اس کے بعد FATF کے ہر اجلاس میں پاکستان نے اپنی بہترین رپورٹ پیش کی مگر اْنہوں نے کہا کہ مزید اس پر کام کریں۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے اس گرے لسٹ کے پراسیس کو اکتوبر 2019ء میں مکمل طور پر گرے لسٹ میں ڈال دیا جس پر جنرل قمر جاوید باجوہ نے تمام ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لے لی اور GHQ میں ایک سیل بنا دیا گیا جس کی نگرانی میجر جنرل کر رہے تھے۔ جنہوں نے تمام ملٹری اور سول اداروں کیساتھ مل کر کام کیا اور مزید فارن آفس کی کوششوں سے جن میں شاہ محمود قریشی اْس وقت کے وزیر خارجہ بھی شامل ہیں بہت کام کیا اور بالاخر 21 اکتوبر 2022ئ کو پاکستان گرے لسٹ سے باہر نکل آیا۔ پاکستان نے FATF کی جانب سے دیئے گئے 27 نکات پر بڑی جامع رپورٹ تیار کرکے پیش کی۔ اب جبکہ پاکستان اس گرے لسٹ سے نکل آیا ہے جس سے ہمیں بیرونی فنڈنگ اور دیگر ممالک کیساتھ مالی معاملات رکھنے میں فوائد حاصل ہوسکتے ہیں، پاکستان کی حکومت نے اس پر خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے بہت خوشی کا اظہار کیا ہے اور وزیراعظم پاکستان محترم شہباز شریف نے خصوصی طور پر اس کامیابی پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو دلی طور پر مبارکباد پیش کی اور کہا کہ اْن کی کاوشوں سے آج ہم سرخرو ہوئے ہیں۔ اْنہوں نے بلاول بھٹو زرداری اور فارن آفس کو بھی مبارک باد پیش کی اور کہا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے خصوصی سیل بنوانے سے آج ہمیں یہ دن دیکھنا دوبارہ نصیب ہوا ہے۔ اب پاکستان کو چاہیے کہ
عالمی برادری اور بالخصوص FATF کے ممبران ممالک، ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ کو بتائیں کہ بھارت مقبوضہ کشمیر سمیت پوری دنیا میں کن کن جرائم میں ملوث ہے، جس پر نظر رکھنی چاہیے اور اْس کے خلاف ایکشن لیا جانا چاہیے اور آئندہ پاکستان کے خلاف کسی قسم کی معلومات کی صورت میں باریک بینی سے چھان بین کر لیا کریں کیونکہ پاکستان کی صورتحال دوسرے ممالک کی نسبت کافی مختلف ہے۔