خود تنقیدی


مغربی اقوام اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انھیں ایسے مورخ میسر آئے جنھوں نے تاریخ کو اس انداز سے منظم و مرتب کیا کہ وہ نہ صرف ماضی میں کی گئی خامیوں پہ نگاہ ڈال سکیں بلکہ ان کی اصلاح کرکے ترقی کی منازل طے کر سکیں۔ خود تنقیدی کا یہ عمل اصلاح کی گنجائش اور آگے بڑھنے کے راستے ہموار کرتا چلا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خود تنقیدی ایک فن ہے جس پہ اگرچہ افلاطون اور ارسطو نے بھی اظہار خیال کیا ہے مگر اسے سائنس کی شکل میں پیش کرنے اور متعارف کروانے کا سہرا خوش قسمتی سے ایک مسلمان مفکر ابن خلدون کو جاتا ہے۔مغرب میں سلطنت روما اور مشرق میں سقوط بغداد اور ہندوستانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ان کے زوال کی وجوہات میں بہت حد تک مماثلت نظر آتی۔ سلطنت روما ، بغداد اور ہندوستان کے زوال کی بنیادی وجوہات میں ناقص نظام تعلیم ، جذبات پرستی ، فکری انتشار ، روح مذہب سے انحراف اور مذہب کے نام پر عوام کا استحصال شامل ہے۔ ان سب کے نتیجے میں معیشت اور معاشرت میں کمزوریاں پیدا ہوئیں۔ معیشت اس طرح تشکیل دی گئی کہ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتے گئے۔ رومی تہذیب میں ظالمانہ ٹیکس کے نظام کی وجہ سے غریب خط غربت سے بھی نیچے چلے گئے۔ اس پہ مستزاد یہ کہ لوگوں کو اپنا پیشہ بدلنے کی بھی اجازت نہ تھی۔کسان کا بیٹا کسان ،لوہار کا بیٹا لوہار اور بڑھئی کا بیٹا بڑھئی ہی بن سکتا تھا۔ اسی طرح تاجروں پہ جب ٹیکس کی بھرمار کی گئی تو انھوں نے اپنا پیشہ تبدیل کر لیا مگر ٹیکس کم اکٹھا ہونے کی بنا پر تاجروں پہ بھی یہ پابندی لگا دی گئی کہ وہ اپنا پیشہ تبدیل نہیں کر سکتے۔ تعلیم کا یہ عالم تھا کہ اعلیٰ تعلیم صرف غلام حاصل کرتے تھے۔ وہ اپنے مالک کے بچوں کو تعلیم دیتے جو کچھ وقت پڑھتے اور باقی وقت اپنے غلاموں کو مارتے رہتے۔ اداروں میں دی جانے والی تعلیم میں علم و آگہی سے زیادہ فن خطابت اور لفاظی کو اہمیت دی جاتی جس نے قوم کو خوابیدگی کی راہ پہ ڈال دیا۔رشوت عام ہونے کی وجہ سے لوگ مملکت کے مفاد کو پس پشت ڈال کر ذاتی مفاد کو اہم سمجھنے لگے۔ اقتصادی بدحالی ، معاشی تفاوت ، جاگیردارانہ اور غیر جمہوری نظام نے انتشار ، بدنظمی ، تنگ نظری ، بے راہ روی گروہ پرستی اور خود غرضی کو جنم دیا۔ معاشرہ شکست و ریخت کا شکار ہوا تو بیرونی قوتوں کو دخل اندازی اور چڑھائی کے مواقع میسر آئے۔
پاکستانی معاشرے کا اگر مندرجہ بالا اقوام سے موازنہ کیا جائے تو بہت سی باتیں مشترک دکھائی دیتی ہیں۔ نظام تعلیم کی خامیاں ،معاشرتی تفاوت ، اقتصادی بد حالی ، جاگیردارانہ غیر جمہوری نظام ، ٹیکس کا ظالمانہ نظام ،تنگ نظری ،بے راہ روی ، خود غرضی ، انتشار ، فرقہ بندی ، گروہ پرستی ، شخصیت پرستی ، حقائق سے نظریں چرانا ، ماضی کی داستانوں میں خوش رہنا۔تاریخ سے سبق سیکھنے کی بجائے وہی غلطیاں بار بار دھرانا ہمیں مسلسل تنزلی کی راہ پہ لے جا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے معاشرے کے مسائل کا درست تجزیہ کیا جائے، ماضی میں بار بار ہونیوالی غلطیوں کی نشاندہی کی جائے اور اسکے حل کی راہیں تلاش کی جائیں۔ بار بار خود تنقیدی کے عمل سے گزرا جائے تاکہ حکومت اور معاشرے کو نئی راہیں مل سکیں۔ اس سارے عمل میں ہمارے مفکرین اور دانشوروں کا کردار سب سے اہم ہے۔ انھیں معاشرے کی اصلاح کیلئے آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ اس معاشرے کے مفلس عوام نے کہیں نہ کہیں انکی تعلیم و تربیت اور علم و دانش کے حصول میں اپنے افلاس کے باوجود قیمت چکائی ہے سو معاشرے کے اہل فکرو دانش کو اس کا قرض چکانا ہوگا۔ اہل فکر کی نگاہ دوربین ہونی چاہئے جو بتا سکے کہ اگلے بیس ، تیس یا پچاس سال میں کیا ہونے والا ہے اور کیا ہو سکتا ہے۔ مسائل کا وقتی حل تلاش کرنے کی بجائے دیرپا حل تلاش کیا جائے۔ شعرو ادب ، موسیقی اور خطابت میں روائتی عشق و مستی سے ہٹ کر جدت لائی جائے اور معاشرتی مسائل کو اجاگر کیا جائے۔علوم عقلیہ پہ توجہ دی جائے اور دنیاوی تقاضوں کے مطابق انھیں جدید خطوط پہ استوار کیا جائے۔ اس وقت جہاں ہمیں بہت سے مسائل درپیش ہیں سب سے اہم مسئلہ قوم کے انداز فکر میں ہے۔ اہل فکرو نظر کو قوم کا انداز فکر تبدیل کرنے کیلئے سعی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ انداز فکر تبدیل کرنے کیلئے درج ذیل امورکا خیال رکھنا چاہیے۔ حقیقت شناسی۔ قوم کو حقیقت شناس بنانے کے لئے ماضی کی داستانوں سے نکال کر حال میں جینے کی ترغیب دینی چاہئے۔ جذبات کی بجائے عقلی دلائل کو اہمیت دینا سکھایا جائے۔ گفتگو لایعنی اور بے سروپا باتوں کی بجائے علم و حکمت پہ مبنی ہو تاکہ قوم کا مزاج بھی ایسی باتیں سننے کی طرف مائل ہو۔ ماضی کی سنہری یادوں اور مستقبل کی سنہری امیدوں میں مدہوش قوم کو اس رومانیت سے سے نکال کر حال کے مسائل کی نشاندہی اور اس سے نکلنے کی جدوجہد کے لیے مائل کیا جائے۔ قوموں کے زوال کی ایک بڑی وجہ قوت فیصلہ کی کمی بھی ہے۔ قوت فیصلہ کا دارومدار بھی فکر پر ہے۔ جذباتی فیصلوں کی بجائے عقلی فیصلے ہی دوررس نتایج لاتے ہیں۔ فکر میں ایک قوت اور توانائی ہوتی ہے اور اس توانائی کو قوم کے دانشور مہمیز دینے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ تعمیری اور عقلی فکر ہی قوم کو مضبوط کر کے ترقی کی راہ پہ گامزن کر سکتی ہے۔ قوم کے مشاغل بھی جذباتی کی بجائے عالمانہ ہوں۔ وطن سے محبت ، قانون اوراداروں کا احترام اور شخصیت پرستی کی بجائے وطن پرستی جسے ابن خلدون نے عصبیت کا نام دیا ہے۔ قوم کے افراد میں پیدا کی جائے۔ اہل دانش مسائل کی تحلیل ،تجزیہ اور ترکیب سے آگاہ ہوں ۔ فقرہ بازی ، خطابت اور غیر سنجیدہ فکر عوام کو سہل پسند ، مذاق اور غیر سنجیدگی کی طرف لے جائینگے۔ قوم کا مزاج شاعرانہ اور عاشقانہ کی بجائے عالمانہ ہو ورنہ جذباتیت اور نعرے بازی مقبول ہو جائے گی اور قوم کو جذباتی نعروں سے بیوقوف بنا کر زوال کے گڑھے میں دھکیل دیا جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن