عمران گوجرانوالہ میں بیرسٹر علی اشرف کے گھر مہمان ہوں گے۔متعدد اعلیٰ کھانے تیار
جمعہ کے روز دھوم دھڑکے سے عمران خان کا لانگ مارچ لاہور سے شروع ہوگیاہے۔ صبح سویرے ہی کارکنوں کی ٹہل سیواکے لیے جگہ جگہ ان کے لیے ناشتے کی تیاری عروج پر تھی گرم گرم نان چنے، پٹھورے، کہیں کہیں حلوہ پوڑی بھی دستیاب تھی۔ کالجوں کے لڑکوں نے بھی اس موقع سے خوب فائدہ اٹھایا۔ خوب گلچھرے اڑائے خود خان جی 11بجے کی بجائے بعداز دوپہر گھر سے برآمد ہوئے۔شاید آرام سے کھاپی کر نکلے ہوں ۔یوں شام 4بجے کے قریب قافلہ رواں ہوا تو رات گئے بھاٹی اور ٹیکسالی سے ہوتاہوا شاہدرہ موڑپر پہنچا جہاں دوپہر کے بعد ہی گوجرانوالہ کہ طرف روانہ ہوا۔ عام کارکن تو نان چنے اور چائے پرگزارہ کرکے تازہ دم ہورہے ہیں۔جس کا وافر بندوبست ہے۔ اس کے مقابلے میں عہدیدار اور گاڑیوں والے رہنما عمدہ ناشتہ اور کھانا خودلارہے ہیں۔ گرچہ لاہور کے کھانے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ مگر گوجرانوالہ کی بھی بات اور ہے۔ روایتی پہلوانوں کا شہر جہاںکے چڑے ، بٹیرے، اور پائے مشہور ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بٹیروں اور چڑوں کے شوقینوں کی وجہ سے گوجرانوالہ کے گردونواح سے لالی(مینا)اور کوؤں کی تعداد حیران کن طور پر کم ہوگئی ہے۔ بہر حال اب اتوار کو پی ٹی آئی کا قافلہ جب گوجرانوالہ میں ہوگا تو وہاں کے میزبانوں نے عمران خان اور اعلیٰ عہدیداروں کی خاطر تواضح کا بھر پور انتظام کرکے اپنی مہمان نوازی کا ثبوت دیاہے۔ اطلاعات کے مطابق معززمہمانوں کے لیے بیرسٹر علی اشرف نے انکے من پسند کھانوں میں چڑے، بٹیرے، دیسی مرغ ،مٹن، مچھلی،باربی کیوچکن، کباب، پلاؤاور بریانی سمیت نجانے اور کون کون سی سویٹ ونمکین ڈشوں کا بندوبست کیاہے۔ یہ مہمان نوازی کی اعلیٰ مثال ہے۔ بس ایک بات ذہن میں کھٹکتی ہے کہ لانگ مارچ اگر چین کے ماوزے تنگ کی طرح تبدیلی والا ہے جس میں وہ کامیاب بھی ہوئے تھے تو یہ کھابے اعلیٰ شان گاڑیاں۔ اے سی والا کنٹینر کیوں۔چین کے بانی ماوزے تنگ نے تو کارکنوں کے ساتھ پیدل طویل مارچ کیا وہی کھایا جو سب نے کھایا ،یوں مارچ کامیاب ہوا۔ تو پی ٹی آئی کے لانگ مارچ میں یہ ادنیٰ واعلیٰ کی پیدل اور گاڑیوں کی تفریق کیوں یہ تو چند سو کلو میٹر کا سفر ہے ماوزے تنگ کا ہزاروں میل کا سفر تھاجس میں ہزاروں جانیں کام آئیں۔
٭٭٭٭
قومی کرکٹ ٹیم کی سیمی فائنل تک رسائی مشکل
پاکستانی ٹیم کی ’’اعلیٰ‘‘ کارکردگی کے باعث ایک بات توطے ہے کہ اب یہ سیمی فائنل تک نہیں پہنچ پائے گی۔ ہاں اگر حساب کتاب لگانے والوں کے تکے صحیح نکلے تو پھر کوئی چانس بنتاہے۔ وہی فارمولا وہ ٹیم اس سے ہار ے اور وہ ٹیم اس سے ہارے۔ اس طرح باقی سب میچ ہارنے والی ٹیمیں جیتیں اور جیتنے والے ہاریں تو پاکستان سیمی فائنل میں پہنچ سکتاہے۔ اب یہ ہم نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی والی بات بھی ہو اور سارا پنڈ مرجائے تب بھی میراثی کا بچہ چوہدری نہیں بن سکتا والا لطیفہ سناکر دل بہلائیں۔ اس لیے اب ہمیں ادھر اُدھر کی ہانکنے کی بجائے دیکھنا ہے کہ ٹیم میں غلط کیاہورہاہے۔ کیوں ایک نمبر ون ٹیم اس اہم ایونٹ میںدوحریفوں سے ہاری ہے۔ وہ بھی ٹی ٹونٹی جس میں ہماے کھلاڑی اور کپتان خود کو ناقابل تسخیر سمجھنے لگے تھے۔ اب کیا کریں جہاں یہ میں ہوں ناں والا فلسفہ جڑ پکڑتاہے وہاں سے خرابی کی ابتداہوتی ہے۔ اس لیے ہمیں اپنی خامیوں پہ نظر ڈالتے ہوئے۔ اپنی اپنی اصلاح کرناہوگی۔ کوئی بھی تاحیات نہیں ہوتا۔ سب نے اپنا اپنا کام کرکے جاناہوتاہے اس لیے دوستیوں، سفارش، تعلق سے ہٹ کر سب کومیرٹ پہ کھیلنا اورکھلاناہوگا اور اب وقت آگیا ہے کہ پی سی بی کی تمام افلاطون انتظامیہ اور سلیکٹرز کو بھی بصداحترام رخصت کرکے نئے اور اچھے لوگوں کو ذمہ داریاں سوپنا ہوں گی۔ سب یہی کہہ رہے ہیںتوایسا کرنے میں ہرج ہی کیاہے۔
٭٭٭٭
چیف الیکشن کمشنر کو قتل کی دھمکیاں دینے والا گرفتار
خرم محبوب نامی اس شخص کو کسی کی محبوبی بہت مہنگی پڑی ہے۔ اب اسے شہزادہ خرم اور ممتاز محل والی رومانوی داستان کا آخری کردار ازبر کرایا جائے گا۔ یہ شخص سعودی عرب عمرہ پر گیا ہوا تھا۔ جہاں خدا جانے اسے شیطان نے کیسے ورغلا لیا۔ وہاں مقدس مقامات کی حاضری اورعبادات میں بھی اسے سیاسی شیطان نے اچک لیا۔ عمرے کے دوران اسے اطلاع ملی کہ ان کا سیاسی قائد نااہل ہو گیا ہے۔ بس پھرکیا تھا‘ ساری عبادت ریاضت چھوڑ کر خرم محبوب نے اپنے محبوب کی محبت میں جذباتی ہوکر موبائل سے چیف الیکشن کمشنر کو جان سے مار دینے کی دھمکی کے علاوہ خدا جانے اور کیا کیا خرافات لکھیں اور کہیں۔ شاید جوش محبت میں محبوب بھول گیا کہ اسے واپس بھی آنا ہے۔ اب صیاد پہلے سے چوکنا تھے‘ جونہی یہ کبک اپنی طرف سے جہاندیدہ بن کر لاہور کی بجائے اسلام آبادنظربچاکر اترا‘ سکیورٹی الرٹ کی وجہ سے شکنجے میں پھنس گیا۔ اب امید ہے آرام سے ہوگا اور ؎
دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کئے ہوئے
کا تصورکیے بیٹھا ہوگا۔یہ غلط بات ہے کہ ہم مقامات مقدسہ کی حاضری کے موقع پر بھی دنیاوی سیاست کو خودپر حاوی کرلیتے ہیں۔ اس گندے کام کیلئے تو زندگی پڑی ہے تو کم از کم ثواب کے لمحات اس کام میں کیوں ضائع کئے جائیں۔
ویسے بھی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے خیال رکھنا چاہئے کہ ہمارا مخاطب کون ہے۔ ہر ایک کے ساتھ دھینگا مشتی نقصان دہ ہوتی ہے۔ ویسے بھی اس وقت سوشل میڈیا پر بہت گند پھیل چکا ہے جس کی صفائی کی مہم بھی جاری ہے۔ تو احتیاط ضروری ہے ناں۔
٭٭٭٭
پاکستانی مہم جو ثمر خان نے 5 ہزار 610 میٹر کی چوٹی سر کر لی
سلام ہے ان باہمت خواتین پر جو مشکل ترین حالات میں سخت ترین ماحول میں بھی تمام تر پابندیوں اور رکاوٹوں کا سینہ پھلانگ کر ایک ایسے میدان میں آگے بڑھتی ہیں جو مردوںکا کھیل تصور ہوتے ہیں۔ ثمر خان صوبہ خیبر پی کے کی وہ جواں ہمت لڑکی ہے جو بطور سائیکلسٹ بھی اپنی حیثیت منوا چکی ہیں۔ اب بطور کوہ پیما بھی ثمر خان نے عورت کو نازک سمجھنے والوں کو بتا دیا ہے کہ عورت صرف شیشہ ہی نہیں‘ فولاد بھی ہوتی ہے۔ یہ اس کی تخلیق کرنے والے کی مہربانی ہے کہ اس نے عورت کو ماں‘ بہن‘ بیٹی‘ بیوی کے روپ میں نرم دل عطا کیا۔ وہ سنگلاخ چٹانوں کو روندنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ ثمر خان نے پاکستان کو 5 ہزار 610 میٹر بلند چوٹی کو سر کرکے ملک میں ’’بیک کنٹری سنو بورڈنگ‘‘ کا ایک نیا کلچر اور موسم سرما کا نیا کھیل متعارف کرایا جس کے اعزاز میں اس چوٹی کا نام ’’غرِثمر‘‘ رکھ دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے یہ دلیر لڑکی دنیا کی واحد خاتون ہیں جس نے گلگت بلتستان کے بیافو گلیشیئر پر ساڑھے چار ہزار میٹرکی بلندی پر سائیکلنگ کی تھی۔یہ بذات خود ایک بڑااعزازہے۔ یوں ثمر خان حوصلہ مند پاکستانی خواتین کیلئے ایک رول ماڈل بن گئی ہیں جو تادیر انہیں بلندہمتی‘ بلند حوصلے اور بہادری کا درس دیتی رہیں گی۔