وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ چین کے ساتھ ہماری پائیدار دوستی ہے‘ چین اور سعودی عرب دونوں ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ ہمیں امریکہ سے تعلقات بگاڑنے کی کیا ضرورت تھی‘ ہم نے دنیا میں بسنا ہے‘ ہم آبیل مجھے مار والی پالیسی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔گزشتہ روز پولیس سروس آف پاکستان کے 48ویں ایس ٹی پی بیج کی پاسنگ آئوٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم ماضی کے نقصانات کا ازالہ کریں۔ انہوں نے سیلاب زدگان کیلئے مزید 30 ملین ڈالر کی انسانی امداد پر امریکی حکومت کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ سیلاب متاثرین کو موسم سرما کے آغاز کے ساتھ ہی خوراک‘ صحت اور رہائش کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑیگا اس لئے سیلاب سے جنم لینے والے المیہ کے اثرات کم کرنے کیلئے دنیا کو فوری طور پر اقوام متحدہ کی امداد کی اپیل میں حصہ ڈالنا چاہیے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہاں کسی بھی پارٹی کے اقتدار کے دوران اپنی سیاست اور پارٹی مفادات کو سامنے رکھ کر قومی پالیسی کا رخ موم کی ناک کی طرح اپنی من مرضی سے موڑنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے جس سے بیرونی دنیا کے ہم پر اعتماد میں خلیج پیدا ہونا فطری امر ہوتا ہے اور دوسرے ممالک کی جانب سے ہمارے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون کے معاملہ میں سردمہری کا عنصر شامل ہو جاتا ہے۔
بدقسمتی سے عمران خان اور انکی پارٹی نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے ’’نیا پاکستان‘‘ اور ’’تبدیلی‘‘ پر مشتمل پارٹی منشور کا پاکستان کے بیرونی دنیا کے ساتھ تعلقات پر بھی اطلاق کرنے کی کوشش کی۔ امریکہ کے ساتھ تو قیام پاکستان کے وقت سے ہمارے خوشگوار تعلقات استوار ہو گئے تھے جب ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے اپنے پہلے بیرونی دورے کیلئے سوویت یونین کی بجائے امریکہ کی دعوت قبول کی۔ اس طرح ہم نے خود کو امریکی کیمپ میں شامل کرلیا۔ بے شک اس قومی خارجہ پالیسی کے ہمیں بہت زیادہ نقصانات بھی اٹھانا پڑے بالخصوص سوویت یونین کیخلاف امریکی سرد جنگ میں اسکے ساتھ تعاون کا ہمیں بہت نقصان ہوا اور آج ہماری معیشت پر افغان مہاجرین کا پڑا ہوا بوجھ اسی کا شاخسانہ ہے جبکہ امریکہ کے ساتھ تعاون کے اسی دور میں ہمیں کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر کے تحائف بھی ملے۔ پھر سانحۂ نائن الیون کے بعد ہم نے امریکی مفادات کے تحت شروع کی گئی افغان جنگ میں خود کو امریکی فرنٹ لائن اتحادی بنا کر جو بے پناہ جانی اور مالی نقصانات اٹھائے اسکے ازالہ کیلئے ہمیں شاید مزید بیسیوں سال کی محنت درکار ہوگی جبکہ ہماری معاونت سے اس جنگ سے خود کو محفوظ نکالنے والے امریکہ نے اس پورے عرصہ میں ہمارے ساتھ طوطاچشمی کی انتہاء کئے رکھی ہے اور ہم پر اقتصادی اور فوجی پابندیوں کی صورت میں دشمنی کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بدقسمتی سے مشرف آمریت کی اختیار کردہ امریکی فرنٹ لائن اتحادی والی پالیسی کو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ادوار حکومت میں بھی برقر ار رکھا گیا اور اسکے ڈومور کے تقاضے پورے کئے جاتے رہے جبکہ 2018ء کی نگران حکومت میں اس پالیسی کے حوالے سے کچھ انگڑائی لی گئی اور امریکہ کو ’’ڈومور‘‘ کے بدلے ’’نومور‘‘ کا جواب دیا گیا مگر پی ٹی آئی کے برسراقتدار آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے امریکہ کا سرکاری دورہ کیا وہاں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے کارپٹڈ اور مکمل پروٹوکول کے ساتھ استقبال اور ٹرمپ کے ساتھ ون آن ون ملاقات کے نتیجہ میں امریکہ کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں ہماری پالیسی دوبارہ ریشہ خطمی والی ہو گئی جس کا ثمر ہمیں سوائے ’’آئس بریک‘‘ کے اور کچھ بھی حاصل نہ ہوا اور امریکہ نے بدستور ہمارے دشمن بھارت کی سرپرستی جاری رکھی۔
موجودہ امریکی صدر جوبائیڈن نے اقتدار میں آتے ہی ہمارے ساتھ فاصلہ بڑھانا شروع کر دیا تھا جنہوں نے وزیراعظم پاکستان کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو کرنا بھی گوارا نہ کیا چنانچہ پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے امریکہ کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں ایسی پالیسی اختیار کی گئی کہ اس میں ذاتی عناد کا عنصر شامل ہو گیا۔ اس کا کھلا اظہار عمران خان کے دورۂ روس کے بعد امریکہ کی جانب سے پاکستان کو بھجوائے گئے سائفر کو امریکی سازش سے تعبیر کرکے کیا گیا۔ اس مقصد کیلئے سائفر میں ردوبدل کرکے اپنی مرضی کے الفاظ شامل کئے گئے اور اسے عمران خان کا بیانیہ بنا کر ملک میں طوفان کھڑا کر دیا گیا چنانچہ پاکستان کے ساتھ امریکی سردمہری میں مزید اضافہ ہو گیا۔ صرف امریکہ ہی نہیں‘ پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے پاکستان کے دیرینہ اور قابل بھروسہ دوست چین کے ساتھ بھی سی پیک منصوبہ پر بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی اور سعودی عرب سمیت عرب ریاستوں کے ساتھ بھی پی ٹی آئی حکومت کی پالیسیوں کے نتیجہ میں دراڑیں پیدا ہوئیں۔ اگر تو ہم اقتصادی طور پر اتنے مضبوط اور مستحکم ہوں کہ عالمی برادری میں رہتے ہوئے ہمیں کسی بیرونی سہارے کی ضرورت ہی نہ رہے تو ہم بیرونی دنیا سے اپنی خودداری اور خودمختاری منوا سکتے ہیں مگر ہماری معیشت تو کبھی اس قابل ہی نہیں ہوئی کہ اپنے پائوں پر کھڑی ہوسکے۔ اس پر مستزاد یہ کہ کرونا وائرس اور سیلاب کی شکل میں قدرتی آفات نے بھی ہمیں آلیا جس سے ہماری معیشت کا مزید بھٹہ بیٹھ گیا۔ ان حالات میں تو ہم دنیا سے الگ تھلگ رہنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
یقیناً ہمیں ملکی اور قومی مفادات اور اسکی سلامتی و خودمختاری کے تقاضوں کو بھی فوقیت دیکر اپنی قومی خارجہ پالیسی کی بنیاد مضبوط بنانی ہے اور اسی کی روشنی میں ایک دوسرے کی آزادی اور خودمختاری کے احترام اور پرامن بقائے باہمی کے اصول سے متعلق اقوام متحدہ کے چارٹر پر کاربند رہ کر امریکہ‘ چین‘ روس‘ سعودی عرب‘ ترکی‘ ایران سمیت دنیا کے ساتھ تعلقات اپنی ضرورتوں کے تحت سازگار بنانے ہیں۔ بھارت نے ہماری ترقی‘ خودمختاری اور سلامتی پر خطرے کی مستقل تلوار لٹکا رکھی ہے۔ اگر ہم دنیا اور خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ بھی تعلقات میں بگاڑ پیدا کرینگے تو اس سے بھارت کو ہمیں دنیا میں تنہاء کرنے کا نادر موقع ملے گا جو اس کا ایجنڈا بھی ہے۔ اس تناظر میں اتحادی جماعتوں کی موجودہ حکومت وزیراعظم شہبازشریف کی قیادت میں خارجہ تعلقات کے معاملہ میں پی ٹی آئی حکومت کے دور میں ہونیوالے نقصانات کے ازالہ کی سنجیدہ کوششیں کررہی ہے جس کیلئے وزیراعظم کے علاوہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری بھی تسلسل کے ساتھ کئے جانیوالے بیرونی دوروں کے ذریعے کوششیں بروئے کار لا رہے ہیں۔ حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں میں متاثرین سیلاب کی امداد اور بحالی کیلئے بیرونی دنیا کا متحرک ہونا یقیناً موجودہ حکومت کی لمحہ بہ لمحہ کی جانیوالی کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے۔ اب وزیراعظم شہبازشریف نومبر کے آغاز ہی میں چین کے دورے پر جا رہے ہیں جبکہ انہوں نے امریکہ کے ساتھ تعلقات سازگار بنانے کا بھی بیڑہ اٹھایا ہوا ہے جو موجودہ حالات کے تناظر میں ملک و قوم کے مفاد میں بہتر پالیسی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ملکی قومی خارجہ پالیسی میں بہرصورت قومی مفادات اور ملکی سلامتی کے تقاضوں پر کوئی زد پڑتی نظر نہیں آنی چاہیے۔
وزیراعظم کا دورۂ چین اور امریکہ کیساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش
Oct 30, 2022