ہمارے ہاں عیدمیلاد النبی ؐکے موقع پر یا اس کی نسبت سے محافل کا انعقاد بالعموم مساجد میں کیا جاتا ہے۔ جن میں تمام تر خطابات کسی نہ کسی’’ خطیبِ پاکستان، شعلہ بیاںمقرر،عالمِ بے مثال یا پھِر استادا لعلماء ‘‘سے کرائے جاتے ہیں۔ امسال ضلع جھنگ کے قصبہ رودُو سلطان کے مغرب میں، ریت کے ٹیلے پر آباد، موضع کلیار والا میںاسی طرح کی ایک تقریب منعقد ہوئی۔ موضوعِ سخن ’’رسولِ رحمت، بحیثیت معلّمِ حکمت و مربّئی ِہُنر‘‘ تھا۔یہ تقریب مقررین اور سامعین دونوں بابت یکسر غیر روائتی تھی ۔ شرکائے مجلس اساتذہ، طلباء دانشوروں، ریت کے ٹیلوں پر آباد کسانوں، شُتر بانوں اورچرواہوں پر مشتمل تھے، جن میں خواتین کی تعداد نمایاں تھی۔ایسی تقریب میں شرکاء کا اتنا متنوع ہونا کم کم دیکھنے میں آیا ہے۔ تقریب اتنی منفرداور خوبصورت کیوں نہ ہوتی، ا س کے منتظم اعلیٰ ایک درویش منش انسان، کہنہ مشق استاد ، صاحبِ عقل و د انش اور ریٹائرڈسول سرونٹ اللہ بخش کلیار تھے۔ جو ساری عمرٹیلوں پر آباد جھگیوںکے باسیوں تک سفری ،تعلیمی ،زرعی و صحت کی سہولیات بہم پہنچانے کیلئے نظامِ سرکار کی چٹانوں سے سر پھوڑ تے رہے۔
اگرچہ تقریب میںصاحبانِ گفتار نے جو اپنے اپنے شعبہ کے جیّد علماء ہیں لوگوں کی سعئیِ رزقِ حلال کی طرف راہنمائی کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی، تاہم جناب عرفان سرفرازصاحب کی غیر روایتی گفتگو نے شرکائے محفل کو سوچنے کے نئے انداز اور پہلو ئوں سے متعارف کرایا۔عرفان سرفراز پاکستان کے انگلیوں پر گنے جانے والے ماہرینِ تعلیم کے سُرخیل ہیں۔ اُن کی تعلیم و تربیت پر مُدلل،منفرد اور عملی گفتگو ہرسامع کی سماعتوں میں اضطراب پیدا کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ محض اتفاق ہے یا سوچی سمجھی تدبیرکہ مسلمانوں کو اُنکے مختلف شعبۂ ہائے زندگی میں اُن راہنما اور مقتدر شخصیات سے اُس طرح متعارف نہ ہونے دیا جائے جس سے اُنہیں اپنے مختلف النوع ورثہ پر نہ صرف اعتماد و افتخار ہو بلکہ وہ اُن کیلئے مستقبل شناسی میں ایک تحریک کا سبب بنے۔
اپنے فکری اور علمی ہیروز کی بابت ہماری نصابی کتابیں ہمیں دبیز اندھیروں میں جھونک چکی ہیں۔ مثال کے طور پر ہمیںریاضی میں ایک پاسکل تکون (پاسکل ٹرائی اینگل) سے متعارف کرایا جاتا ہے جو فکری اور نصابی بد دیانتی کی منہ بولتی تصویر ہے۔ دراصل فارسی ریاضی دان، القراجی (953-1029ئ) پہلا شخص ہے جس نے اس تکون کی تفاصیل تحریر کیں۔ بعد میںانہیں عظیم فارسی شاعر،ماہرِ فلکیات اور ریاضی دان عمر خیام (1048-1131ئ)نے دہرایا۔پھر اُس نے الجبرا کے کئی ایک تھیورم دریافت کیے جن کا تعلق اس تکون سے تھا۔ آج ہماری نصابی کتابیں اسے خیام ٹرائی اینگل کہنے کی بجائے پاسکل ٹرائی اینگل کے طور پر پیش کرتی ہیں۔اس ضمن میں عربی اعداد 0,1,2,3,4,5,6,7,8,9 بذاتِ خودبہت بڑی دلیل ہیں۔ہمارا تدریسی نصاب بتاتا ہے کہ ولیم ہاروے نے 1628ء میں نظامِ دورانِ خون کو دریافت کیا ۔ہم نے اس دریافت شدہ کی دریافت کو تو نصاب کا حصہ بنا لیا ، لیکن اسے تین صدیاں قبل دمشق کے ابن النفیس کی اصلی اور پہلی دریافت بتانے سے مجرمانہ رو گردانی کی۔ ابن عساکر( 1106-1176ئ) ایک عظیم عالم اور تاریخ دان تھے۔ دیگر اساتذہ کے علاوہ جن سے اُنہوںنے اکتسابِ فیض کیا اُن میں اسی خواتین بھی شامل تھیں۔ اُنہیں حدیث کے اماموں کا فخر بھی کہا جاتاتھا۔اُنہوںنے پچاس سے زیادہ کتب تحریر کیں۔ مگر ہمارا آج کا طالب علم انکے نام تک سے واقف نہیں۔ البیرونی نے کلرکہار کے قریبی پہاڑوں پر افق کی جانب بنتی ہوئی ٹرائی اینگل کو غور سے دیکھااور محمود غزنوی سے کہا کہ اگر آپ یہاں رکیں تو میں آپ کو اس ٹرائی اینگل کی مدد سے پوری دنیا کا محیط نکال کر دے سکتا ہوں۔یہ بات شایدیورپ کی کتابوں میں تو مل جائے لیکن ہماری کتابیں خاموش ہیں۔ایک دوست کے ہاں ایک یورپی کمرشل کونسل مہمان آئے۔ دوران گفتگو کہنے لگے کہ ہمارے ملک میں ’’ایوی راس‘‘ نامی کسی مسلمان کا بت رکھا ہے۔میزبان نے انہیں بتایا کہ وہ ابنِ رشد ہے۔ وہ یورپی حیران ہو کر کہنے لگا، مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ ابنِ رشد ہے۔
شرارت کا ایک رخ تو یہ ہے کہ مشاہیر کے ناموں پر گرد کی دبیز تہہ چڑھا دی ہے تا کہ وہ کبھی نظر ہی نہ آئیں اور دوسری بددیانتی یہ ہے کہ جن کے نام سامنے آئیں ان سے ہمیں بس واجبی سی جانکاری حاصل ہو۔اور اُن کی پوری شخصیت ہمارے سامنے نہ آپائے۔ نبی کریمؐ کی ذات ہی کو لے لیجیے۔قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کا شیوا تھا کہ وہ ہر سال بچوں کو سیرت کی پوری کتاب پڑھاتے تھے۔ ہم نے آج مختلف جماعتوں میں حیاتِ طیبہؐ کو چند اسباق کی نذر کر دیاہے جس سے آپ ؐ کی زندگی کا اجمالی تصور بچوں کے ذہنوںمیں نہیں بن پاتا۔ چاہیے تو یہ کہ چھٹی جماعت سے لیکر ڈگری جماعتوں تک ہر جماعت میں سیرتِ طیبہ ؐ کا الگ سے لازمی پرچہ مختص ہو ۔ لیکن چونکہ پاکستانی سلیبس کے پیچھے پڑی ہوئی این جی اوز اور ان کے مقامی ایجنٹ ہماری حکومتوں کی تدریسی سمت طے کرتے ہیں، اس لئے یہ جوئے شیر کون لائے۔ تبھی توکنڈولیزا رائس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جب ہم نے پرویز مشرف سے کہا کہ آپ کے تعلیمی نصاب کو ہم مرتب کریںگے ، تو انہوں نے کہا با لکل ٹھیک ہے، آگے بات کریں۔
خوددار قوم بننے کیلئے خود داری پر مبنی اقدامات اٹھانا پڑتے ہیں۔ خدا میرے وطن کو ایسے حکمران نصیب کرے جو جاہ و حشمت کی حرص سے آگے بڑھ کر ہمیں خود شناس قوم بنا دیں۔
خوددار قوم بننے کے متقاضی اقدامات کی ضرورت
Oct 30, 2022