اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سیاسی حالات کا معیشت پر گہرا اثر ہوتا ہے اور آج کے دور میں معیشت اور سکیورٹی کو علیحدہ علیحدہ نہیں کیا جا سکتا، ''اس لیے کسی ممکنہ سیاسی بے یقینی کے حوالے سے فوج کی تشویش بالکل بجاہوسکتی ہے،ارشد شریف کے بہیمانہ قتل کے بعد سب سے زیادہ اہمیت جرنیلوں کی پریس کانفرنس کو دی جارہی ہے جس کی ایک اہم بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ شاید پہلی بار دیکھا گیا ہے کہ کوئی حاضر سروس ڈی جی آئی ایس آئی اس طرح کوئی پریس کانفرنس کرے جس کے بعد سے مختلف تجزیہ کاروں کی جانب سے بھانت بھانت کی بولیوں کا سلسلہ چل نکلا ہے۔آرمی کے دونوں سینئر افسران نے نہ صرف ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے بات چیت کی بلکہ انہوں نے تحریک انصاف کا نام لیے بغیر بہت سارے ایسے معاملات پر بھی بات کی جس سے تحریک انصاف کی قیادت کی جانب انگلیاں اٹھنا شروع ہوگئی ہے جو فوج کو بدنام کرنے سے لیکر انہیں مختلف ناموں سے یاد کرنے اور ملک میں عدم استحکام کے حوالے سے رہی، ممتاز اینکر پرسن ارشد شریف کے قتل نے پاکستانی سیاست میں مزید ہیجان کی کیفیت پیدا کی ہوئی ہے اس پر عمران خان کا لانگ مارچ جس نے وفاقی حکومت کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں،لیکن ان تمام باتوں میں بہت سے تحفظات تحریک انصاف کے بھی ہیں عمران خان کی نااہلی کے بعد تحریک انصاف کا مانناہے کہ پہلے رانا ثنا اللہ سے ہمیں دھمکیاں دلوائی گئیں۔ پھر فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس کرائی گئی، اب یہ جرنیلوں کی پریس کانفرنس مارچ پر اثر انداز ہونے کی ایک کڑی ہے۔ پی ٹی آئی رہنماو¿ں کا کہنا ہے کہ آئی ایس پی آر کی نیوز کانفرنس سے دھچکا پہنچا، ہم اداروں کی نیوز کانفرنس کا جواب نہیں دے سکتے، عزت اور احترام کا رشتہ برقرار رہنا چاہیے۔شیری مزاری نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ارشد کو خطرہ نہیں تھا اگر ایسا ہوتا تو وہ مجھے ضرور بتاتا، صحافی کا قاتل وہی ہے جس نے اسے قتل کی دھمکی دی۔ انہوں نے کہا کہ حامد میر کو گولیاں لگنے پر جو کمیشن بنایا اس کی رپورٹ آج تک سامنے نہیں آئی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے غلط کہا کہ ارشد شریف کو خطرہ نہیں تھا، میرے پاس میسیجز ہیں اور کالز ہیں، چھبیس اگست کو ارشد شریف کو ٹوئٹر پر میسج دیا اور اپنے ساتھ پیش آنے والے حالات و ملنے والی دھمکیوں سے آگاہ کیا تھا۔سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ فیصل واوڈا نے کہا کہ ارشد شریف کا قتل ہوا ہے اور اس کی سازش پاکستان میں ہوئی ہے، ارشد شریف سے متعلق کوئی ثبوت لیپ ٹاپ یا موبائل نہیں ملے گا، شواہد مٹا دیے گئے ہیں۔ ساری باتیں اپنی جگہ مگرمیں سمجھتا ہوں کہ جرنیلوں کی یہ بات قابل فکر اور حقائق پر مبنی ہے کہ سیاسی عدم استحکام بہت بڑے مسائل پیدا کر رہا ہے اور ملکی ترقی کی میں رکاوٹ ہے،کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سیاستدان اپنے مسئلے خود حل نہیں کرتے اداروں کو جان بوجھ کر بیچ میں لاتے ہیں یہ وجہ ہے کہ آج پاکستان کی معیشت سیاسی بدامنی کی وجہ سے زبوں حالی کا شکار ہے، اپنے وسیع معاشی وسائل کے باوجود ملک کو سیاسی عدم استحکام کے خطرے کی وجہ سے اب بھی شدید معاشی بحران کا سامنا ہے یہ جانتے ہوئے کہ غیر مستحکم سیاسی نظام ایک خطرہ ہے، لیکن اداروں کو بیچ میں لانے کی روایت ڈالنے کی شروعات عمران خان نے نہیں کی بلکہ یہ وطیرہ تو شریف خاندان کے گھر سے شروع ہوتاہے اور بلاول ہاس پر جاکر ختم ہوتاہے عمران خان سے پہلے نوازشریف اسٹیبلشمنٹ پر الزام تراشیاں کرتے رہے اداروں کو دبا میں لانے کی کوشش کرتے رہے یہ ہی حرکتیں ان کے لوگ بھی کرتے رہیں یعنی مسلم لیگ کے رہنماں نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی ہے، خیر یہ تحقیقات ابھی آنا باقی ہیں کہ ارشد شریف کس کے کہنے پر لندن سے کینیا گئے،کس نے ارشد شریف کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا،کس نے انہیں ملک سے جانے پر مجبور کیا،کون ارشد کی موت کا فائدہ اٹھا رہا ہے، ہمارے ملک میں افرتفری سے کس کو فائدہ ہوتا ہے،ان سب سوالوں کا جواب آنا ابھی باقی ہے ساری اصلیت سامنے آجائے، یہ وہ سوالات ہیں جو سوشل میڈیا پر زیربحث ہیں،حکومتی حلقوں میں موجود بارہ سے چودہ جماعتوں کا اتحاداس قتل کا رخ بنی گالا کی جانب موڑنے کی بھرپور کوششوں میں مگن ہے،لیکن میں قوم کو چند حقائق سے آگاہ کرنا چاہونگا لیکن اس بات کا یہ ہر گزمطلب نہیں ہے کہ یہ تمام قتل وغارت گری میں کس کا ہاتھ ہے اور کس کا نہیں لیکن یہ سب کچھ شریف خاندان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہونے والی ہلاکتیں ہیں۔ گلزار احمد رمضان شوگر کیس کا گواہ بے موت ماردیا گیا،قاتل کا کوئی پتہ نہیں، مزمل راجہ رمضان شوگر کے جعلی اکاو¿نٹس سے رقم نکالنے کا گواہ اور ذمہ دار کو اچانک دل کا دورہ پڑتا ہے جب کہ وہ ایک تندرستی کی زندگی گزار رہاتھا۔غلام شبیر تمام لانڈرڈ پیسوں کا اکاو¿نٹ ہولڈر اچانک دل کا دورہ جس کے اہل خانہ کے مطابق دل کے کسی مسئلے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، مقصود چپڑاسی ایک اہم گواہ اور شریف خاندان کا اپنے اپارٹمنٹ میں مردہ پایا گیا کچھ پتہ نہیں ایسے کس نے مارا۔ڈاکٹر رضوان شریف خاندان کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کے مرکزی تفتیش کارتھے کہا جاتاہے کہ اسے جو دل کا دورہ پڑا وہ شہباز اور حمزہ شریف کے مسلسل دباو¿ کی وجہ سے تھا جس کی وجہ سے اس کی جان گئی،عمران رضا رانا ثنا اللہ اور شریک کے خلاف مقدمات کے تفتیشی وزارت داخلہ کے مسلسل دباو¿ کی وجہ سے خودکشی کی۔اب ذرا شہید ارشد شریف کی بات کریں توارشد شریف حکومت کی تبدیلی کے آپریشن کے خلاف مسلسل بول رہے تھے اور شریف خاندان کی منی لانڈرنگ پر ایک دستاویزی فلم بنانے میں حصہ دار تھے، جن کا کچھ روز قبل نیروبی، کینیا میں قتل ہوا۔نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے فیصل واوڈا نے کہا کہ ارشد شریف کی موت ایک حادثہ نہیں ہے، آنے والے دنوں میں بہت کچھ بتاتا رہوں گا اب میں نہیں رکوں گا۔ان تمام باتوں کو لکھنے کا مقصد عوام کے دل ودماغ کو کھولنا ہے کہ وہ جس ملک میں رہ رہے ہیں وہاں اس قسم کے کھیل کھیلنا ایک جیتے جاگتے شخص کو موت کے منہ میں اتاردینا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
قاتل کی یہ دلیل منصف نے مان لی
مقتول خود گرا تھا خنجر کی نوک پر
شاہ رخ جتوئی کا کیس آپ سب کے سامنے ہے، ہاں مشکل کا م صرف یہ ہے کہ اس شخص کے قاتل کو گرفتار کرنا اور اس کوسزا دلوانا۔ بس دعا کرتے رہیں کہ اللہ اس ملک کو اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔