نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے لاہور کی قدیم روایات اور ثقافت کو پھر سے زندہ کرنے کے لیے 15 روزہ میلے ’لہور لہور اے‘ کا افتتاح کردےا ہے۔موسم خزاں مےں سجنے والے اس مےلے سے صرف لاہور کے شہری ہی نہیں بلکہ صوبے اور ملک کے دیگر شہروں سے لوگ بھی شرےک ہوںں گے اور پنجاب کے ثقافتی رنگوں سے خوب لطف اندوز ہوں گے۔ میلے میں عوام کی تفنن طبع کیلئے لاہور کے تاریخی مقامات پرمختلف تقریبات کا اہتمام بھی کیا جارہا ہے۔ کھیل، موسیقی، آرٹ، ادب اوردیگر تقاریب میں عوام کی دلچسپی کے پروگرام مےلے کا حصہ ہوں گے۔ اس کے علاوہ نامور قوال اپنے فن کا جادو جگائیں گے۔میلے میں پپٹ شو اور آرٹ کی نمائش کا اہتمام اور لاہور کی 18 بڑی یونیورسٹیوں کے درمیان تھیٹرکے مقابلے بھی منعقد کرائے جائینگے۔ ا لحمراءآرٹس کونسل میں 7 روزہ کتابوں کی نمائش لگے گی، پنجابی ثقافت سے جڑے کھےل جےسے نیزہ بازی، کبڈی اور روایتی دوسرے رواےتی کھیل ہوں گے۔تقسےم سے پہلے گوجرانوالا کو شےراز ہند کہا جاتا تھا ےعنی اس شہر کو برصغےر مےں اہل علم کا مرکز مانا جاتا تھا۔تقسےم کے بعد اس شہر کوپہلوانوں اور پھر مزےدار پکوانوں کے حوالے سے جانا جانے لگا۔کچھ عرصہ پہلے اےڈےشنل ڈپٹی کمشنر جنرل شبےر بٹ اس شہر مےں بہار کی صبح کی طرح تشرےف لائے ہےں۔ا ن کے شہر مےں تعےنات ہونے کے بعد پہلے شےرانوالا باغ مےں قوالی کی محفل ، آل پنجاب ’پنجابی مشاعرہ ‘ قصہ گوئی تقرےب پھر جم خانہ مےں اےک شاندار مزاحےہ مشاعرہ منعقد ہوا اور اب جم خانہ گوجرانوالا کے زےر اہتمام جناح سٹےڈےم مےں اےک بڑے ثقافتی شو کا انعقاد کےا جارہا ہے ۔گوجرانوالا کی تارےخ مےں ےقےنا ےہ پہلی بار ہوگا کہ دنےا موسےقی کا بڑا نام راحت فتح علی خاں گوجرانوالا کے نوجوانوں،فےملےز اورعام لوگوں کے سامنے وطن سے محبت کے گےت پےش کرے گا۔اس مےلے کو منعقد کرنے مےں پےش پےش محترمہ فرح دےبا نے بتاےا کہ اس ثقافتی مےلے سے حاصل ہونے والی رقم سے نہ صرف فلسطےنی مسلمانوں کی مالی مدد کی جائے گی بلکہ گوجرانوالا کے شہر مےںاےک فری ڈائلسسز ہسپتال بنانے کیلئے بھی پےسہ دےا جائیگا ۔ماضی قرےب تک مےلے پنجاب کی پہچان ہوا کرتے تھے۔مزیدار اور چٹخارے دار روایتی کھانے، رنگ و بو میں لپٹی ثقافت، میلے ٹھیلے، رات گئے تک جاری رہنے والی رونق اور گہما گہمی، ماضی قرےب کے پنجاب کی پہچان تھی۔صوفےا کے درباروں اور موسمی تہواروں کی نسبت سے منعقد ہونے والے مےلوں مےںعالم لوہار،عناےت حسےن بھٹی،بالی جٹی،شوکت علی اور دوسرے لوک گلوکاروں کو سننے کے لےے ملک ہی نہیں بلکہ دنیا کے کونے کونے سے لوگ میلے دیکھنے آتے تھے۔ پھر ملکی حالات اےسے بن گئے کہ مےلے لگنے بند کروادئےے گئے اور کچھ مےلوں کے رنگ ہی بدل دئےے گئے۔منڈےک’نوجوان‘ سستی اور معےاری تفرےح سے محروم کردئےے گئے۔نتےجہ ےہ نکلا کہ نوجوان نسل گھروںکے اندر قےد ہوکے رہ گئی۔ان کے سوچنے سمجھنے اور کام کرنے کے انداز بدلتے چلے گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پنجابی انتظامیہ اور لوگوں کی ترجیحات بھی بدلتی چلی گئےں۔نوجوان اپنی ثقافت کی بجائے پڑوسی ملک کے رنگوں مےں رنگتے نظر آنے لگے۔ اب ہر گھر مےں روز پڑوسی ملک کی فلمےں ،گانے اور واہےات وےب سےرےز چل رہی ہےں ۔ہماری سےاسی،سماجی اور مذہی تنظےمےں اس پر خاموش نظر آتی ہےںلےکن گوجرانولا مےں منعقد ہونے والے ثقافتی مےلے اور فنڈ رےزنگ کی وجہ سے شہر کے نوجوان اور عام شہری جہاں بہت پرجوش ہےں وہےں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اےسے وقت مےں جب غزہ مےں فلسطےنی مسلمان جنگ کی حالت مےں ہےں ۔ثقافتی مےلے کا منعقد کےا جا نا بنتا نہےں ہے ۔ےہ سچ ہے کہ فلسطےن مےں جو کچھ ہورہا ہے اس پہ ہمارا دل دکھی ہے امرےکہ ،برطانےہ اور فرانس کے پاس وےٹو پاور ہے ۔امرےکی صدر اور ان کے وزرا اسرائےل جا کے انکے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کررہے ہےں۔جس کے بعد ساری دنےا کے دباو کے باوجود اسرائےل اپنی کاروائےاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ کاش مسلمان سائنسی،معاشی اور دفاعی طور پر اتنے مضبوط ہوتے کہ اسلامی ملک بھی غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلا ن کرسکتے۔ہمارے مذہبی، سماجی اور سےاسی راہنماوں کو ےہ نقطہ سمجھنا ہوگا کہ دشمن طاقتوں کا مقابلہ کرنے کیلئے علمی ترقی چاہیے۔اہل مغرب علمی،معاشی،سےاسی اور دفاعی ٹیکنالوجی میں ہم سے بہت آگے ہیں۔پرکشش نعرے لگانے اپنے بازار بند کرنے اور لانگ مارچ کرنے سے ہم پچھلے سات عشروں سے نہ کشمےرےوں کو آزادی دلا سکے ہےں اور نہ ہی ہماری آواز پہ فلسطےن کے مسلمانوں کو آزادی مل رہی ہے ۔ اب بحثےت عام شہری ہم فلسطےنےوں کے لےے صرف دعا ےا مالی مدد ہی کرسکتے ہےں۔مرنے والوں کے ساتھ مرا نہیں جاتا۔بلکہ جانے والوں کو اچھے لفظوں سے یاد کیا جاتا ہے انکی مغفرت کے لیے دعا کی جاتی ہے۔پسمانگان کی مدد کی جاتی ہے۔دنیا میں رات کے بعد دن،بہار کے بعد خزاں،بارش کے بعد خشک سالی اور عروج کے بعد زوال آتا ہے۔ایک طرف پاک بھارت بارڈر پر گولیاں چلنے کی خبریں تو کچھ دنوں بعد کسی تہوار کے موقع پر اسی بارڈر پر دونوں ملکوں کے فوجی اےک دوسرے کو مٹھائی پیش کرتے ہےں۔اےک طرف بھارت مےں بدترین کارکردگی کے باوجود پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی سلیکٹر،کوچ تیس تیس، پینتیس لاکھ ماہانہ اور دوسری مراعات وصول کرتے رہیں گے جبکہ دوسری طرف فٹ بال کے دوسرے روانڈ کے لیے کولیفائی کرنی والے پاکستانی فٹ بالر معاوضے کے انتظار میں ہیں۔بھارتی حکمران پاکستان سے بات چیت کرنے کو تیار نہیں ہورہی لیکن اُسی بھارت کی ہائیکورٹ پاکستانی گلوکاروں کو اپنے ملک میں کام کرنے کی اجازت دے دےتی ہے۔
پاکستان کے سیاسی،معاشی اور دوسرے بہت سے مسائل نے لوگوں کو پریشان کیا ہوا ہے۔اےسے مےںثقافتی مےلے منعقد کرکے پنجاب حکومت اور گوجرانوالا کی ضلعی انتظامےہ اگر شہرےوں کے چہروں پر خوشےوں کے کچھ رنگ بکھےرپاتی ہے تو ےہ اےک تحفے سے کم نہےں ہوگا ۔کہتے ہےں کہ خوشیاں کھیتوں میں نہیں اُگتیں، نہ بارش میں برستی ہیں اور نہ بازاروں میں فروخت ہوتی ہیں۔بلکہ خوشیاں ہمارے دائیں بائیں کہیں بہت قریب ہمارا انتظار کر رہی ہوتی ہیں کہ ہم انہیں دریافت کریں۔دو ہفتے پہلے تک ملک میں سموگ نے ہواوں کو ذہرےلا بناےا ہوا تھا کہ سانس لےنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ اب باران رحمت کے بعد فضائیں نکھری نکھری محسوس ہورہی ہیں۔اللہ کرے مسلمان ملکوں کے بادشاہ فلسطےنی مسلمانوں کے لےے اےک الگ رےاست کے لےے مل کے کام کرےں اور اللہ کرے مسلمان سےاسی،معاشی اور دفاعی طور پر اتنے مضبوط ہوں جائےں کہ دنےا مےں کوئی کافر مسلمانوں پر ظلم نہ کرسکے۔