مذمتی قراردادوں میں الجھا فلسطین

مشرقِ وسطی میں ہونے والی خطرناک جنگ دنیا کو ایک نئی صورتحال سے دوچار کر چکی ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان اس دیرینہ تنازع کی جڑیں بیسویں صدی کے اوائل میں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ فلسطین میں یہودیوں کی ہجرت سلطنت عثمانیہ کے دور سے شروع ہوچکی تھی لیکن یہودیوں کی فلسطین میں نقل مکانی میں اضافہ پہلی جنگ عظیم کے بعد ہوا جس کی وجہ سے یہودیوں سے عرب آبادی کے ساتھ تناو¿ کا سبب پیدا ہوا۔1947ءمیں اقوام ِمتحدہ نے یروشلم کے لیے ایک انتظام کے تحت فلسطین کو الگ یہودی اور عرب ریاستوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ پیش کیا۔ اس منصوبے کو یہودی رہنماو¿ں نے تو قبول کیا لیکن عرب رہنماو¿ں نے اسے مسترد کر دیا کہ اس منصوبے میں عالمی انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے۔ 1948ءمیں عرب اسرائیل جنگ ہوئی جس کے نتیجے میں بھاری جانی نقصان کے علاوہ فلسطینی عربوں کی نمایاں نقل مکانی بھی ہوئی۔ دوسری بڑی جنگ 1967ءمیں ہوئی اور اس چھ روزہ جنگ کے دوران اسرائیل نے مغربی کنارے، غزہ کی پٹی اور مشرقی یروشلم سمیت علاقے کے ایک اہم حصے پر کنٹرول حاصل کر لیا۔یوں اس وقت سے ان علاقوں پر قبضہ اور اسرائیلی بستیوں کی تعمیر جیسے تنازعات کی وجہ سے امن ایک خوا ب بن کر رہ گیا۔ 
ماضی میں امن کے لیے متعدد اقدامات، مذاکرات اور معاہدوں کی کوشش کی گئی ہے جن میں اوسلو معاہد ہ (1993ئ)، کیمپ ڈیوڈ سمٹ (2000ئ)، اور اناپولس کانفرنس (2007ئ) شامل ہیں لیکن اس کے باوجود دیرپا امن قائم نہ کیا جا سکا۔عالمی برادری بشمول امریکہ،یورپی یونین، اور مختلف عرب ریاستوں نے ثالثی اور تنازع کا پرامن حل تلاش کرنے کی کوششیں کیں لیکن چونکہ بڑی طاقتوں کا جھکاو¿ اسرائیل کی جانب تھا اس لیے انصاف پر مبنی کو ئی ایسا حل نہ نکل سکا جو فریقین کے لیے قابل ِ قبول ہو۔اب اسرائیل اور فلسطین تنازع ایک ایسا پیچیدہ مسئلہ بن چکا ہے جس کا کوئی آسان حل نظر نہیں آرہا۔ اس میں بڑی طاقتوں کے مفادات ، بین الاقوامی بیانیے، مذہب، علاقائی تنازعات، تشدد اور عدم اعتماد جیسے عناصر شامل ہیں جس کی وجہ سے سفارت کاری سے ا س کا حل مشکل دکھائی دیتا ہے۔
7 اکتوبر سے اب تک اسرائیل غزہ کی پٹی میں سینکڑوں کی تعداد میں فضائی حملے کر چکا ہے جس کے نتیجے میں اب تک 8000 کے قریب فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں 3600 کے قریب خواتین اور بچے ہیں۔ 20000 کے افراد شدید زخمی ہیں اور 1800 لوگ لا پتا ہیں جن میں 1000 کے قریب بچے ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کے لیے خوراک، پانی، بجلی اور ایندھن کی سپلائی منقطع کر دیا ہے اور اس کے بعد انسانی بحران کا خدشہ بڑھ گیاہے۔اسرائیل نے غزہ کے 10 لاکھ باشندوں کو شمالی غزہ خالی کرنے کا کہا ہے جبکہ حماس نے رہائشیوں سے گھروں میں رہنے کی اپیل کی۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، تقریباً 10 لاکھ فلسطینی جو کہ غزہ کی پٹی کی آبادی کا نصف ہیں، بے گھر ہو چکے ہیں اور مسلسل اس جنگ کا ایندھن بن رہے ہیں۔ جنگ زدہ علاقوں میں کام کرنے والی امدادی ایجنسیاں غزہ میں آنے والی قیامت خیز اِنسانی تباہی کے بارے میں انتباہ کر رہی ہیں۔ ایک عجیب طرز ِ عمل ہے کہ 27 اکتوبر کو اقوام ِمتحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہونے والی ووٹنگ میں دنیا کی اکثریتی اقوام نے تناو¿ ختم کرنے پر زور دیا اور انسانی بنیادوں پر فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا لیکن 28 اکتوبر سے اسرائیل زمینی کارروائیوں میں توسیع کا منصوبہ پیش کر رہا ہے۔ اسرائیل فلسطین کے معاملے پر امریکہ ، مغرب اور ان کے حواری بالکل واضح ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ وہ حماس کے ان حملوں کی مذمت کرتے ہیں اور اسرائیل کی حکومت اور عوام کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان حملوں میں اسرائیلی جانوں کے ضیاع پرافسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مشرق وسطیٰ کے امن مندوب ٹور وینس لینڈ کہتے ہیں کہ وہ فریقین کو اپیل کرتے ہیں کہ وہ پیچھے ہٹ جائیں۔اسلامی دنیا میں ایران نے واضح طور پر کہا کہ وہ فلسطین اور یروشلم کی آزادی تک فلسطینی جنگجوو¿ں کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔
مغرب کے مقابل چین اور روس نے مختلف رائے کا اظہار کیا۔ چین نے متعلقہ فریقوں پر زور دیا کہ وہ پرامن رہیں، تحمل سے کام لیں اور حالات کو مزید خراب ہونے سے بچائیں۔انکی رائے میں تنازع سے نکلنے کا بنیادی راستہ دو ریاستی حل پر عمل درآمد اور فلسطین کی ایک آزاد ریاست کے قیام میں مضمر ہے۔ روس بھی اپنے موقف میں واضح ہے اور مغرب کو اس پر تشدد معاملے کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ روس نے حماس کی مذمت نہیں کی اور امریکہ پر الزام عائد کیا کہ امریکہ نے مشرق وسطیٰ میںحل کے طریقہ کار کو نظرانداز کیا ہے۔اسرائیل اور حماس جنگ کے آغاز کے بعد سے پاکستان بھر میں فلسطین کے حق میںاور فلسطینی کاز کی حمایت میں آواز اٹھائی جا رہی ہے۔ سرکاری سطح پر پاکستانی وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے اسرائیل کی مذمت کی ہے اور اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی کا ذمہ دار قرار دیا۔
دنیا اس عظیم انسانی المیے پر منقسم ہے۔ مغرب اور امریکہ اپنے موقف میں واضح ہیں۔مغرب اور امریکہ کے حریف چین اور روس بھی اپنے مغرب اور امریکہ مخالف موقف میں واضح ہیں۔ اگرچہ قبلہ اول کی وجہ سے اسلامی دنیا اس تنازعے میں ایک اہم اسٹیک ہولڈر ہے لیکن الجھن کا شکا ر ہے، مبہم ہے اور کمزور موقف اختیار کیے ہوئے ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے طالب ِ علم کی حیثیت سے میری رائے ہے کہ دنیا میں عالمی انصاف کو یقینی بنانے اور بڑے تنازعات کے حل کی ذمہ داری بڑی طاقتوں اور عالمی اداروں پر عائد ہوتی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ بڑی طاقتوں کے مفادات آڑے آتے ہیں اور عالمی ادارے بڑی طاقتوں کے مرہونِ منت ہوتے ہیں۔او آئی سی اور اسلامی دنیا کو ادراک ہو نا چاہیے کہ بڑی طاقتوں کے مفادات کمزوراور مبہم لوگوں کے ساتھ نہیں ہوتے۔ بڑی طاقتوں کو مضبوط حواری درکار ہو تے ہیں۔بین الاقوامی تعلقات میں طاقت انتہائی اہم عنصر ہے اور بدقسمتی سے عالمی سیاست میں طاقت کی کوئی اخلاقیات نہیں ہوتی۔ اس لیے اسلامی دنیا کو مذمتی قرارداوں سے تھوڑا آگے نکل کر سوچنا ہوگا ورنہ فلسطین مذمتی قراردادوں میں الجھا رہ جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن