پیر‘ 14 ربیع الثانی 1445ھ ‘ 30 اکتوبر 2023ئ

Oct 30, 2023

ایلون مسک کا سٹار لنک کے ذریعے غزہ میں انٹرنیٹ فراہمی کا اعلان 
خدا کی پھٹکار ہو میٹا اور ٹک ٹاک والوں پر جو غزہ کے قتل عام اور اسرائیلیوں کی بربریت کے خلاف پوسٹیں ڈیلیٹ کر رہے ہیں اور اسرائیل کے خلاف یا غزہ کے فلسطینیوں کے حق میں پوسٹیں لگانے والوں کو بلاک کر رہے ہیں۔ کیا ان کی اس حوصلہ شکنی سے اسرائیل کے مظالم چھپ جائیں گے۔ نہیں کبھی نہیں ساحر لدھیانوی نے کیا خوب کہا ہے 
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے 
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا 
ملائیشیا نے تو باقاعدہ میٹا اور ٹک ٹاک والوں کو خبردار کیا ہے کہ اگر ان کی یہی روش رہی تو ان کے خلاف سخت اقدامات کئے جائیں گے۔ مزہ تو تب ہے باقی مسلم ممالک بھی ان دونوں کے ہوش ٹھکانے پر لگانے اور ان کو ان کی اوقات یاد دلانے کے لیے ان کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کا اعلان کریں کے ان پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ ان دونوں کے جواب میں ٹوئٹر جو اب ایکس کے نام سے چلتا ہے کے مالک ایلون مسک قدرے دردِ دل رکھنے والے شخص معلوم ہوتے ہیں انہوں نے غزہ میں سٹار لنک کے ذریعے انٹرنیٹ کی فراہمی کا اعلان کیا ہے تاکہ اسرائیل کی طرف سے غزہ میں انٹرنیٹ کی بندش کا توڑ نکالا جا سکے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے غزہ کی جو صورتحال دنیا کے سامنے آ رہی ہے اس کی وجہ سے ہر جگہ اسرائیل پر تھو تھو ہو رہی ہے۔ دنیا بھر میں روزانہ لاکھوں افراد فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے اسرائیل، امریکہ اور ان کے حواریوں کو شدید تکلیف ہو رہی ہے۔ جدید دور میں میڈیا وار ایک طاقتور فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ عالم اسلام کے حکمران چاہیں تو بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ انہیں اس غیر مسلم ایلون مسلک کی فلسطینیوں کی عملی مدد سے ہی سبق سیکھنا چاہیے۔ 
٭٭٭٭٭
300 یونٹ تک بجلی فری۔ موٹر بائیک والوں کو آدھی قیمت پر پٹرول ملے گا۔ استحکام پاکستان پارٹی 
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا۔ اب یہ ایک نئی فلم دکھانے والے ہمارے پاس اپنا منڈوا لے کرآ رہے ہیں۔ وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ عوام اتنی بار د یکھ چکے ہیں کہ اب ان کو کسی کی نوٹنکی پر اعتبار نہیں رہا۔ روٹی کپڑا اور مکان کے بعد خوشحالی اور روزگار پھر ایک کروڑ نوکریاں اور گھر بنانے والی فلمیں فلاپ ثابت ہوئیں، لوگوں کو چونا لگا کر ماموں بنا کر وہ سب چلے گئے۔ عوام آج بھی روٹی ، کپڑے اور مکان سے محروم ہیں ،70 فیصد سے زیادہ لوگ خط غربت سے نیچے جا چکے ہیں مگر ابھی تک ہمارے سیاسی مداریوں کے سینے میں ٹھنڈ نہیں پڑی۔ خدا جانے یہ لوگ کب شنانت ہوں گے۔ لگتا تو کچھ ایسا ہے کہ اشرافیہ کی پوری کوشش ہے کہ ملک سے غربت مکاﺅ غریبی ختم کرو کے نعروں کا اصل مقصد و منشا یہ ہے کہ غریبوں کو مکاﺅ‘ختم کرو ان کے وجود سے پاکستان کو پاک کرو۔ اس کے بعد یہ چند فیصد اشرافیہ کی موجاں ای موجاں ہو گی۔ انہیں اپنے حرص کو مٹانے کے لیے ایک وسیع چراگاہ مل جائے۔ اب استحکام پاکستان پارٹی نے اپنے پہلے جلسے میں جسے ہم تقریب رونمائی کہہ سکتے ہیں گرچہ ایک اچھا تاثر قائم کیا ہے مگر جو دعوے کئے گئے ہیں کیا ان پر عمل ممکن ہے۔ اگر ان کی نیت صحیح ہے وہ واقعی ایسا کریں گے تو پھر تو پوری قوم دعا کرے کے یہ لوگ آئیں مگر بجلی اور پٹرول کے ساتھ غذائی بحران پر بھی ہاتھ ڈالیں اس وقت لوگ دو وقت کی روٹی کھانے سے محتاج ہو گئے ہیں۔ پٹرول اور بجلی کے بنا گزارہ ہو سکتا ہے مگر روٹی کے بغیر گزارہ ممکن نہیں۔ بھوک کے ہاتھوں مجبور لوگ اپنے بچوں کو مار رہے ہیں کیونکہ وہ انہیں بھوکا نہیں دیکھ سکتے۔ کروڑوں لوگوں کے پاس موٹر سائیکل نہیں‘ گھروں میں بجلی نہیں مگر پیٹ سب کے ساتھ ہے۔ اس پاپی پیٹ کو دو وقت کم از کم روز بھرنا پڑتا ہے۔ سب سے پہلے اس مسئلے کا حل نکالیں پھر چاہے بجلی اور پٹرول سستی کریں۔ دیکھتے ہیں اس مسئلہ کا حل کون نکالتا ہے۔ 
٭٭٭٭٭
فضل الرحمن سے ملاقات کی تصاویر اور ویڈیو جاری کرنا غلط ہے۔ اسد قیصر 
قربان جائیے اس طرز تغافل پر۔ کیا فضل الرحمن کے در دولت پر حاضری کے وقت آپ جیسے جہاندیدہ کھلاڑیوں کو اندازہ نہیں تھا کہ اس کے نتائج اور اثرات کیا ہوں گے۔ اب تو حافظ حسین احمد نے بھی زبردست بات کہی ہے وہ ویسے بھی جے یو آئی کے ترجمانِ خوش بیان ہیں۔ کہتے ہیں اڈیالہ جیل والے نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا ہے۔ اب کل کے حریف ایک ہی ٹرک میں سوار نظر آئیں گے۔ ویڈیو میں مولانا تحریک انصاف کے وفد سے جس طرح ہنستے مسکراتے باتیں کرتے نظر آتے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تقریب غم نہیں جشن مسرت تھا۔ ہاں ایک بات ضرور ہے ”حالات کی تفسیر تو چہروں پہ لکھی ہے“ اسد قیصر اور ان کے ساتھ جانے والے وفد کے ارکان کے چہرے بجھے بجھے پر مژدہ لگ رہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ جسے وہ اور ان کے قائد گلی گلی بدنام کرتے ان کا تمسخر اڑاتے رہے آج انہی کے دولت کدے پر انہیں آنا پڑا ہے۔ یہ وقت وقت کی بات ہے اسی لیے کہتے ہیں پہلے تولو پھر بولو۔ ہاتھ سے لگائی گرہیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں۔ اب نجانے کیوں شاید تحریک انصاف کے کارکنوں کے جوابی ردعمل کے سبب اسد قیصر کہہ رہے ہیں کہ جے یو آئی والوں نے تصاویر اور ویڈیو جاری کر کے غلط کیا۔ کیا انہوں نے ایسی کوئی پیشگی شرط رکھی تھی کہ ملاقات کو خفیہ رکھا جائے گا۔ اگر ایسا کچھ نہیں تھا تو الزام کس کو دیں۔ اب پی ٹی آئی کے کارکن بہرحال میڈیا وار میں جانفشانی سے جتے ہوئے ہیں وہ اس کو بھی پی ٹی آئی کا کمال یا جمال قرار دیں گے۔ سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کرنے میں انہیں کمال حاصل ہے۔ اب دیکھتے ہیں وہ خفت مٹاتے ہیں یا مرشد کی کرامات کا ظہور کہتے ہیں جبکہ فضل الرحمن ان کی طرف نہیں گئے وہ ان کی طرف آئے ہیں۔ پی ٹی آئی والے پہلے تو وہ کبھی کسی مخالف پارٹی کے رہنما کے گھر کسی کی وفات پر تعزیت کرنے نہیں گئے۔ یہ اچانک تعزیتی تبدیلی کہاں سے آ گئی۔ 
کیا یہ بقول حسین احمد، کرکٹ کی سیاست کے مارشل لا کے گلی ڈنڈے میں تبدیل ہونے کا خوف تو نہیں۔ 
٭٭٭٭٭
آسٹریلیا میں ہزاروں گھوڑوں کو فائرنگ کر کے مارنے کا فیصلہ 
واہ رے واہ یہ کیسی بات ہے۔ ایک ملک میں لاکھوں بیمار مدقوق ہڈیوں کا ڈھانچا بنی گائیوں کو بھی مارنا پاپ سمجھا جاتا ہے۔ وہ شہروں اور دیہات میں اپنے فضلے (گوبر و پیشاب) سے آلودگی پھیلاتی ہیں۔ بیماریاں تقسیم کرتی ہیں۔ مگر وہاں کے توہم پرست اسے ماں کا درجہ دے کر اس کی آرتی ا±تارتے ہیں، پوجا کرتے ہیں اور اس کے موتر کو پوتر بنا کر پیش کرتے ہیں اور زندگی میں کئی گھونٹ پیتے بھی ہیں۔ ہاں بھارت کے چالاک تاجر ان گائیوں کو مروا کر وہ بھی چماروں کے ہاتھوں ان کی کھال اتار کر دنیا میں فروخت کرتے ہیں اور اربوں ڈالر کماتے ہیں۔ یہاں انہیں کوئی پاپ نہیں ہوتا۔ اگر خدا نخواستہ کوئی مسلمان اپنی ہی گائے کو حلال کرے یا اس کا گوشت کھائے اس کو یہی جنونی بے دردی سے قتل کر دیتے ہیں۔ کاش آسٹریلیا کے ان جنگلی گھوڑوں کو بھی اگر وہاں باپ ، چچا یا ماموں کا درجہ حاصل ہوتا تو شاید ان کی جان بچ سکتی۔ مگر یورپ والے ان توہمات سے جان چھڑا چکے ہیں۔ ان جنگلی گھوڑوں کی بڑھتی ہوئی تعداد آسٹریلیا کے نیشنل پارکس میں ایک مسئلہ بن گئی ہے۔ یہ آس پاس کے دیہات میں فصلوں کو کھاتے اور اجاڑتے ہیں جس سے کسان سخت ناراض ہیں اور پھر یہ بدمست گھوڑے دیگر جنگلی حیات کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ ایک بار پہلے بھی ان کی تعداد کم کی گئی تھی۔ مگر لگتا ہے یہ جنگلی گھوڑے پاکستانیوں کی طرح کثرت اولاد پر یقین رکھتے ہیں ‘چاہے بعد میں بھوکے کیوں نہ مرنا پڑے۔ حالانکہ آسٹریلیا والے چاہتے تو یہ گھوڑے دیگر ممالک کو عطیہ کرتے یا تحفے میں دیتے یا ان ممالک میں فروخت کرتے جو ان کا گوشت رغبت سے کھاتے ہیں تو کروڑوں ڈالر کما سکتے تھے۔ مگر وہاں کی حکومت نے اس نیشنل پارک میں موجود 19 ہزار گھوڑوں کی تعداد 3 ہزار مقرر کر کے باقی کو مارنے کا فیصلہ کیا ہے جنہیں فائرنگ سکواڈ والے ماریں گے۔ اس پر دیکھنا غزہ میں انسانی قتل عام پر خاموش رہنے والے کتنا شور مچاتے ہیں۔ 
٭٭٭٭٭

مزیدخبریں