غزہ میں معصوم اور نہتے فلسطینیوں پر غاصب صہیونیوں کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف دنیا بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ لندن میں ہزاروں افراد نے احتجاجی مارچ کیا جس میں غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔ ترکیہ میں بھی فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے لوگ سڑکوںپر نکل آئے۔ ترک صدر رجب طیب اردگان کے استنبول میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے نکالی گئی ریلی سے خطاب کرتے کہا کہ حماس دہشت گرد تنظیم نہیں ہے۔ پوری دنیا کو بتائیں کہ اسرائیل جنگی مجرم ہے، ہم تیاری کر رہے ہیں۔یورپ کے مختلف ممالک اور امریکا میں بھی دہشت گرد ریاست اسرائیل کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جن کے ذریعے یورپی اور امریکی عوام اپنے حکمرانوں کو یہ احساس دلا رہے ہیں کہ وہ دہشت گردی کرنے والے صہیونیوں کا ساتھ دے کر انسانی حقوق کو پامال کررہے ہیں۔ اس سب کے باوجود مغربی ممالک کی حکومتیں نہایت ڈھٹائی سے غاصب اسرائیل کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال رہی ہیں۔
ادھر، اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کیا جانے والا جنگ بندی کا مطالبہ ناجائز ریاست اسرائیل کی طرف سے رد کردیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ نے عرب ممالک کی پیش کردہ غزہ میں جنگ بندی کی قرار داد بھاری اکثریت سے منظور کی تھی۔ عرب ممالک کی قرار داد کی فرانس سمیت 120 ممالک نے حمایت کی تھی جبکہ امریکا، اسرائیل اور آسٹریا سمیت 14 ممالک نے قرارداد کی مخالفت کی تھی۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے سب اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔ اس موقع پر سعودی مندوب نے کہا کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے سنگین نتائج خطے اور پوری دنیا پر ہوں گے۔ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ غزہ پر بمباری بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔ غزہ میں بمباری فوری طور پر بند ہونی چاہیے۔ اسرائیل کے غزہ میں جاری حملوں پر ترکیہ کے سخت موقف کے باعث ترکیہ سے اپنے سفارتی عملے کے کچھ افراد کو واپس بلا لیا۔ اسرائیلی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور ترکیہ کے تعلقات کا ازسرنو جائزہ لیںگے۔
اقوامِ متحدہ کے علاوہ مسلم ممالک کی نمائندہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی جانب سے عالمی فریقوں سے غزہ میں اسرائیلی جارحیت بند کرانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ تنظیم کے سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم طہٰ نے اس حوالے سے عالمی اداروں اور شخصیات، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، یورپی یونین میں خارجہ پالیسی کے عہدیدار، ریڈ کراس کے سربراہ اور انسانی حقوق کے لیے یو این ہائی کمشنرکو خطوط لکھے گئے ہیں۔ اس صورتحال کا ایک مزید تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ غزہ میں محصور نہتے شہریوں کو انسانی بنیادوں پر بھیجی جانے والی امداد کو بھی ناجائز ریاست اسرائیل کی طرف سے وہاں نہیں پہنچنے دیا جارہا۔ اس سلسلے میں مصر نے رفاہ کراسنگ سے غزہ میں امداد بھیجنے کے معاملے پر کہا ہے کہ اسرائیل غزہ جانے والی امداد میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔
تین ہفتوں سے زائد عرصے سے غاصب صہیونی ریاست نے غزہ پر شدید جنگ مسلط کررکھی ہے اور اب زمینی فوج بھی غزہ میں داخل کردی گئی ہے اور سمندر میں موجود بحریہ کی کشتیوں اور طیاروں سے اب تک کی سب سے زیادہ تباہ کن بمباری جاری ہے۔ اسرائیلی بری، بحری اور فضائی فوج نے شمالی غزہ پر 3 اطراف سے شدید بمباری کرتے ہوئے غزہ میں زمینی آپریشن مزید وسیع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسرائیلی طیاروں کی بمباری سے مزید سینکڑوں فلسطینی شہید ہوئے ہیں جس کے بعد شہداءکی مجموعی تعداد آٹھ ہزار کے قریب پہنچ گئی جبکہ 21 ہزار سے زائد زخمی ہیں۔ جاں بحق افراد میں اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی کے 53 اہلکار بھی شامل ہیں، ریسکیو کے پندرہ افراد صرف ایک ہی روز میں مارے گئے۔ علاوہ ازیں، نسل کشی پر پردہ ڈالنے کے لیے اسرائیل نے غزہ میں کمیونی کیشن اور انٹرنیٹ کا نظام تباہ کردیا ہے۔ نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے اسرائیل نے غزہ میں وائٹ فاسفورس کا استعمال شروع کردیا ہے جس کا مقصد آبادی کو بڑے پیمانے پر جانی نقصان پہنچانا ہے۔
اقوام متحدہ میں ’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی‘ کے مطالبہ کی متوازن مسودہ قرارداد کو ناجائز ریاست اسرائیل کے حق میں جھکانے کی مغربی کو ششیں پاکستان کے مستقل نمائندے منیر اکرم کی متاثرکن تقریر کے باعث آخری لمحات میں ناکامی سے دوچار ہو گئیں۔ کینیڈا نے امریکا کی حمایت سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ووٹنگ سے پہلے ایک ترمیم پیش کی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ اسرائیل میں 7 اکتوبر کو شروع ہونے والے حماس کے حملوں اور شہریوں کو یرغمال بنانے کی مذمت کی جائے گی۔ ترمیم کی حمایت کی پیشکش کا مقصد حماس کی بین الاقوامی مذمت کے لیے اسرائیلی دباو¿ کی حمایت حاصل کرنا تھا۔ توقع کے عین مطابق انسانی حقوق کے سب سے بڑے مخالف بھارت نے اس ترمیم کے حق میں ووٹ دیا لیکن قرارداد مطلوبہ دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ ترمیم کے حق میں 55 کے مقابلے میں 88 ووٹ ملے جبکہ 23 ارکان غیر حاضر رہے۔
منیر اکرم نے اپنی تقریر میں کینیڈا کی مجوزہ ترمیم کو یک طرفہ، غیر مساوی اور غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے تمام رکن ممالک سے اپیل کی کہ وہ اس کی حمایت نہ کریں۔ پاکستانی کے مستقل نمائندے نے جنرل اسمبلی ہال میں مندوبین سے کہا کہ کینیڈین سفیر صرف حماس کا نام لینے پر اصرار کرتے ہیں لیکن وہ 7 ہزار فلسطینیوں کے قتل اور 17 ہزار کو زخمی کرنے والے اسرائیل کا نام لینے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کرتے۔ منیر اکرم کا کہنا تھا کہ اسرائیل سچائی اور انصاف کا سامنا نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس حقیقت کا سامنا کر سکتا ہے کہ جرم کی ابتدا اسرائیلیوں سے ہی ہوئی ہے۔ اس معاملے میں اصل گناہ اسرائیل کا ناجائز قبضہ ہے۔ انہوں نے کینیڈین ترمیم کے حامیوں پر زور دیا کہ یہ ظاہر نہ کریں کہ آپ فلسطینی عوام کے خلاف متعصب ہیں۔ پاکستانی سفیر نے کہا کہ ہمارا مقصد لڑائی کو روکنا ہے۔
مغربی ممالک غاصب اسرائیلی ریاست کی دہشت گردی کی حمایت کر کے اپنے عوام اور دنیا کو واضح طور پر یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ان کی طرف سے انسانی حقوق کے بارے میں کی جانے والی باتیں کھوکھلے دعوو¿ں کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہیں۔ ان ممالک کے عوام کا اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف سڑکوں پر نکل آنا اس بات کی دلیل ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ اور حکومتوں کی طرف سے ناجائز ریاست اسرائیل کے حق میں کیا جانے والا تمام تر پروپیگنڈا ناکام ہوچکا ہے اور دنیا بھر میں بسنے والے لوگ یہ بات اچھی طرح جان چکے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کا اصل ذمہ دار کون ہے اور اس کی حمایت کر کے کون انسانی حقوق کو پامال کررہا ہے۔ روس اور چین جیسے طاقتور ممالک کو چاہیے کہ وہ ہم خیال ممالک کو ساتھ ملا کر پہلے مرحلے میں فوری طور پر غزہ پر ناجائز ریاست اسرائیل کی طرف سے مسلط کی گئی جنگ بند کرائیں اور پھر اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے کوششیں تیز کریں۔ اس سلسلے میں پاکستان، ترکیہ، انڈونیشیا، سعودی عرب اور مصر جیسے ممالک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔