علی رضا منگی
پاکستان میں تمباکو کے استعمال پر قابو پانے کے لیے موثر اقدامات پر عمل درآمد طویل عرصہ سے مشکلات کا شکار ہے۔حال ہی میں سول سوسائٹی کے کئی ممتاز گروپوں اور صحت عامہ کی وکالت کرنے والوں نے تمباکو مینوفیکچررز کی طرف سے ملک میں مختلف ریٹیل پوائنٹس پر تمباکو کی روک تھام سے متعلق قوانین کی مسلسل خلاف ورزی پر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔خاص طور پر سوسائٹی فار پروٹیکشن آف رائٹس آف دی چائلڈ(SPARC) جیسی تنظیموں نے حکومت پر زور دیا ہے کہ بچوں کوتمباکو کے استعمال کے نقصان دہ اثرات سے بچانے کے لیے تمباکو کی مصنوعات پر صحت سے متعلق چارجز عائد کیے جائیں۔
پاکستان میں تمباکو کا استعمال صحت عامہ کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے،ایک عام اندازے کے مطابق 20% بالغ افراد سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔بچوں اور نوجوانوں میں یہ مسئلہخاص طور سے سنگین ہے،13 سے15 سال کی عمر کے 10 بچوں میں سے تقریباً ایک بچہ تمباکو نوشی کرتا ہے۔پاکستان میں حالیہ برسوں کے دوران تمباکو پر قابو کیلئے پین فار ٹوبیکو فری کڈز(CTFK) کی زیر قیادت ایک آگہی مہم میں بچوں اور نوجوانوں پر اس کے منفی اثرات کو اجاگر کیا،اور اس کی روک تھام کیلئے زیادہ سخت ضابطوں کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔
تمباکو کی تشہیر میں پوائنٹ آف سیل(POS) کا کردار عام لوگوں اور ا±ن افراد کو ترغیب دینے میں جو تمباکو نوشی کرتے ہیں،خاص طور سے نوجوانوں کے حوالے سے انتہائی اہم ہے۔متعدد مطالعات نے تمباکو کے پوائنٹ آف سیل پر تشہیر اور نوجوانوں میں تمباکو نوشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے درمیان واضح تعلق کو ظاہر کیا ہے۔جس سے تمباکو نوشی کا تجربہ کرتے کرتے باقاعدہ عادت کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔"Big Tobacco, Tiny Targets" مہم کے حصے کے طور پر اعداد و شمار جمع کرنے والے تربیت یافتہ افراد نے اسلام آباد، مری، لاڑکانہ، پشاور، حافظ آباد، پنڈی بھٹیاں،جلال پور بھٹیاں اور شکر درہ سمیت آٹھ شہروں میں 133 اسکولوں کے ایک سو میٹر کے اندر واقع 268 تمباکو خوردہ فروشوں کا جائزہ لیا۔
انسٹیٹیوٹ فار گلوبل ٹوبیکو کنٹرول(IGTC) نے اس مہم کے تحقیقی نتائج کو منکشف کیا ہے،جن میں پاکستان اور عالمی سطح پردیکھے جانے والے چار مشترک پوائنٹ آف سیل مارکیٹنگ حربوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔اول،94% سگریٹ خاص طور سے بچوں کے پسندیدہ اسنیکس اور مشروبات کے قریب اس طرح سے رکھے گئے تھے کہ تمباکو کی مصنوعات کا عام چیزوں کے ساتھ تعلق رہے۔دوئم،تمباکو کے95%اشتہارات نوجوان ذہنوں کی با آسانی رسائی کے لیے آنکھ کی اونچائی کے برابر نمایاں طور پر آویزاں تھے۔مزید برآں،ان پوائنٹس آف سیل پر فلیورڈ سگریٹوں کی موجودگی تشویش ناک ہے کیونکہ یہ نوجوانوں خصوصاً بچوں کو اپنی طرف راغب کر سکتے ہیں۔
کمپین کی اسٹڈی کے جواب میں حکومت پاکستان نے 2020 میں ایک جامعTAPS پابندی[SRO 72(I)/2020 کی منظوری دی۔یہ پابندی تمباکو کی ہر قسم کی تشہیر،پروموشن، اور اسپانسرشپ(TAPS) کی ممانعت کرتی ہے۔تاہم اس پیش رفت کے باوجود ابھی بھی ایسی مشکلات موجود ہیں جن پرقابو پانے کی ضرورت ہے۔ IGTC کی طرف سے دسمبر 2021 میں کی جانے والی ایک فالو اپ اسٹڈی میں یہ بات سامنے آئی کہ 2020 میں لگائی جانے والی پابندی کی تعمیل کم ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹوبیکو کمپنیاں اپنے مارکیٹنگ حربوں سے اب بھی نوجوانوں تک رسائی کے راستے تلاش کر رہی ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں 22 ملین سے زیادہ لوگ تمباکو نوشی کرتے ہیں اور ملک میں ہر سال 163,600 افراد تمباکو نوشی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔یہ تعداد پریشان کن ہے۔اس صورت حال کے پیش نظر حکومت پاکستان کو تمباکو کے استعمال سے جڑے ہوئے خطرات کے بارے میں آگہی بڑھانے کے لیے عام لوگوں کی آگہی کیلئے کمپین میں سرمایہ کاری کر نی چاہیئے۔
پاکستان میں ٹوبیکو کنٹرول کے منظر نامے کو مستحکم بنانے کے لیے حکومت،سول سوسائٹی اور عوام کی طرف سے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔"Big Tobacco, Tiny Targets" جیسی کاوشوں نے اس مسئلہ کو سامنے لانے کے لیے ایک معیار طے کر دیا ہے،مگر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔اب پاکستان ایک نازک مرحلے پر کھڑا ہے اور اس کے پاس موقع ہے کہ وہ عالمی ادارہ صحت(WHO) کے فریم ورک کنونشن آن ٹوبیکو کنٹرول(FTCT) آرٹیکلز13 اور16 کی پاسداری کرتے ہوئے علاقائی لیڈر کی حیثیت سے ابھرے،جو تمباکو کی تشہیر،پروموشن اور اسپانسر شپ اور نابالغوں کو فروخت کی ممانعت کرتے ہیں۔اس کے علاوہ،ملک کو MPOWER اسٹریٹجیز بالخصوص اقدام"E" پر عمل کرنا چاہیئے جس کا محور تمباکو کی تشہیر،پروموشن اور اسپانسر شپ پر پابندی لگانا ہے۔یہ اقدامات نہ صرف یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ملک میں تمباکونوشی کے مسئلہ پر آگاہی کا فروغ ممکن ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ حکومت نوجوانوں کو تمباکو کی مارکیٹنگ سے محفوظ رکھنے کے لیے کارروائی کرنے پر آمادہ ہے۔اگر مسلسل کوششیں کی جائیں تو پاکستان میں تمباکو سے پاک ملک بننے کی طرف پیش رفت کرنے کی صلاحیت ہے اور اس طرح آنے والی نسلوں کو تمباکو کے نقصان دہ اثرات سے بچایا جا سکے گا۔