محمد اکبر نیازی
فنون لطیفہ میں شاعری کو سب سے زیادہ لطیف، نازک اور پرکیف مانا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ انسان کے داخلی و خارجی احساسات، کیفیات اور محرکات کی بھرپور عکاسی کا سبب بنتی ہے۔ شاعری ایسی صنفِ سخن ہے جو انسان کی نفسیات کی باریکیوں، رنگینیوں اور گہرائیوں کا اظہار کم ترین الفاظ میں کر سکتی ہے۔
ملٹن نے کہا تھا کہ شعر کی خوبی یہ ہے کہ سادہ ہو، جوش سے بھرا ہو اور حقیقت پر مبنی ہو۔ الطاف حسین حالی نے کہا کہ سادگی سے مراد ہے کہ ، شعر سننے اور پڑھنے والے کو ایسی ہموار اور صاف سڑک ملنی چاہیے جس پر وہ آرام سے چلا جائے۔ ہر شاعر کا اپنا انداز، اپنا اسلوب ہوتا ہے۔ رفعت وحید کا اسلوب سادہ ہے۔ وہ شاعری میں گھما پھرا کر کچھ کہنے کی قائل نہیں ہیں۔ لیکن ان کے اشعار میں حقیقت نگاری کا عنصر نمایاں ہے. اپنی ذات کے اظہار کے ساتھ ساتھ ان کے بیشتر اشعار زندگی یا انسانی رویوں کا کوئی نہ واقعہ یا المیہ بیان کرتے ہیں۔
شہرِ خاموشاں ہے آباد میرے چاروں طرف
میرے کانوں کے مقدر میں صدا کوئی نہیں
بزمِ دنیا میں کئی مجھ سے برے لوگ بھی تھے
میں یہ سمجھی تھی یہاں مجھ سے برا کوئی نہیں
ان کی شاعری میں ایک خاص پہلو یہ ہے کہ وہ ہمارے معاشرے کی ایک ایسی مخصوص عورت کو تصویر کرتی ہیں جو مسکراتے ہوئے صبر، قربانی اور سمجھوتے کرنے کا ہنر جانتی ہے۔ سادہ بیانیے کے باوجود ان کے اشعار قاری کو کئی منظر دکھاتے ہیں اور اسے سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ وہ ظلم و ستم اور سماج کے کمزور پہلووں پر قلم اٹھانے والی حساس شاعرہ ہیں۔
محبت کو خدا کرنا پڑے گا
اسے دو آتشہ کرنا پڑے گا
تمہیں چاہا بھی اور تم پر مرے بھی
ہمیں اب اور کیا کرنا پڑے گا
اندھیرے سے رہائی چاہیے تو
بدن کو ہی دِیا کرنا پڑے گا
ہم عورتوں کو تو دینی پڑتی ہے قربانی
نئی یہ دنیا پرانے رواج مانگتی ہے
میں اپنے بچوں کا خود رزق ہوتی جاتی ہوں
اور ایک بڑھیا میرے گھر اناج مانگتی ہے
مجھے قبیلے نے باندھا ہوا ہے پگڑی سے
جو مجھ میں لڑکی ہے وہ ہم مزاج مانگتی ہے
رفعت وحید کے شاعرانہ اسلوب میں مضامین کو لپیٹ کر نہیں باندھا گیا۔ ان کے اشعار براہ راست قاری کے دل و دماغ پر دستک دیتے ہیں۔ مجھے اس شاعرہ کے اشعار میں وہ ماں بھی نظر آتی ہے جو اپنے بچوں کی خاطر گھر سے نکل کر معاشرے سے نبرد آزما ہو جاتی ہے اور اس کا واسطہ سماج کے بےرحم تھپیڑوں سے بھی ہے۔
میں چل پڑی تھی کسی خواب کے تعاقب میں
پھر اس کے بعد مری عمر بھاگتے گزری
مرنے والے رہا ہوئے لیکن
جینے والوں کو مل رہی ہے سزا
بھوک بچوں کی ذہن میں آئی
لے نہیں پائی پھر میں اپنی دوا
میری شاخوں پہ پھول کم کم ہیں
راس آئی نہیں یہ آب و ہوا
۔۔۔
رفعت وحید نے اپنی شاعر میں خوبصورت علامات کو بھی اپنے مخصوص بیانیے میں استعمال کیا ہے۔ وجودی کرب اور دل کے نہاں خانوں میں چھپی خواہشوں اور بے آباد قصبوں کو عمدگی سے قاری کے سامنے رکھ دیا ہے۔
سر پہ سورج بھی میسر نہیں ہونے والا
سایہ بھی قد کے برابر نہیں ہونے والا
میں نے اک بار ترے غم کو دکھائی آنکھیں
اب مرا عشق قلندر نہیں ہونے والا
ٹھیک سے دل پہ حکومت بھی نہیں ہو سکتی
تو کسی طور سکندر نہیں ہونے والا
میں ذاتی طور پر ان خواتین قلم کاروں پر بےجا تنقید کا اس لیے قائل نہیں ہوں جو زندگی کے ہنگاموں کے ساتھ گھر کی ذمہ داریوں سے بھی وقت نکال کر لکھنے کا کام کر لیتی ہیں سوائے اس کے قلم کار خواتین کا پیشہ ہی کل وقتی علم و ادب ہو۔ رفعت وحید میں شاعرانہ صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے۔ وہ زندگی کو بہت قریب سے دیکھتی آئی ہیں۔ وہ اپنی شاعری میں دکھ سکھ، ہجر وصال، دھوپ چھاوں، امیری غریبی، اپنائیت اور بیگانگی کے سارے قصے سناتی ہیں۔
کہیں دکھائی نہیں دیتی سازگار فضا
تو کون امن کی چھاوں میں رقص کرتا ہے
یہ کس کی لاش کے ٹکڑے پڑے ہوئے ہیں یہاں
یہ کس کا خواب فضاوں میں رقص کرتا ہے
مجھے یہ بات اچھی لگتی ہے کہ غزل مردانی پیروں میں بجتی ہوئی پازیب نہیں رہی بلکہ نسوانی جذبات کے اظہار کے لیے غزل اب اسی کے سراپے کا سہارا لیتی ہے۔ نسوانی جذبات کو زمینی حقائق کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے، ایک کھلونے کی بجائے ایک جیتی جاگتی ہستی کا احساس دلاتے ہوئے سلیقے سے بیان کر دینا آسان کام نہیں ہے۔ خصوصی طور پر جب اسے اپنے جذبات کے اظہار کے لیے مشرقی شرم و حیا کے ساتھ لفظوں اور محاوروں کی پرخطر وادی سے گزرنا پڑے۔
کہ جس کے جرم میں دنیا عطا ہوئی ہم کو
خدایا کون سا ایسا گناہ کر آئے
اسے یقین نہ تھا پاوں کے رِستے چھالوں کا
سو ہم بھی راہ کے پتھر گواہ کر آئے
کہانیوں سے جڑے لوگ ہیں سو فیصلہ بھی
حقیقتوں سے ذرا سا منافی چاہتے ہیں
رفعت وحید کی شاعری میں متنوع موضوعات موجود ہیں۔ وہ اپنی ذات کے بیان کے ساتھ ساتھ ذات کے ہجرے سے نکل کر بھی شعر کہنا جانتی ہیں۔ وہ اپنی سادہ اور سلیس زبان میں اپنے احساسات و جذبات کو آئینہ دکھاتی ہیں۔
ستم رسیدہ عورت جب بیزار ہو جاتی ہے تو انا پرستی میں ہی وفا سے منہ نہیں موڑتی۔ اور ناسازگار حالات کا مقابلہ ڈٹ کر کرتی ہے۔ ایسی ہی احساسات کی منظر کشی شاعرہ کے کئی اشعار میں دیکھی جا سکتی ہے۔
میں تو ہنستے ہنستے اجڑ گئی رہِ عشق میں
کوئی دکھ تھا نہ ملال تھا یہ کمال تھا
یہ عجیب تھا تہہ خاک مل گئی زندگی
ابھی میرا سانس بحال تھا یہ کمال تھا
شاعرہ نے اپنے احساسات و جذبات اور زندگی کے کٹھن راستوں سے گزرنے کی کہانی کو اپنے تجربات و مشاہدات کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ مجموعی طور پر ان کی یہ چوتھی کتاب اور اردو غزل کی دوسری کتاب ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کا سفر رائیگاں نہیں ہے۔ ان کے بہت سے اشعار یاد رہ جانے والے ہیں۔ اور احساس کے تاروں کو چھیڑنے والے ہیں۔ ان کا یہ سفر ترقی کی طرف گامزن ہے اور پھر لفظوں کی حرمت کو تو سنوارتے، نکھارتے، سنبھالتے عمریں بیت جاتی ہیں۔ پھر بھی نجانے کتنی باتیں ادھوری رہ جاتی ہیں، کتنے درد ان کہے اور کتنے ہی جذبات انسان کے اندر ہی دب کر اسے چھلنی کر دیتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ رفعت وحید کی اگلے پڑاو کو پڑھتے ہوئے کچھ اشعار مجھے مسکرانے پر مجبور کر سکیں۔