محبوب احسن ملک
mahboob@malik
17 ستمبر 2024 …بارہ ربیع الاول کی سعادتوں اور سیادتوں سے مرقع دوپہر کو صابرہ' شاکرہ اور مجسمہ محبت شریک حیات کو سپرد لحد کرکے چار دھائی کی اپنائیت ' چاھت اور وابستگی سے بھرپور انمول رشتے کو بوجھل دل سے الوداع کیا۔ ایک رخصتی 1985 کے دوران مرحوم مرزا اسماعیل کی رہائش گاہ جلال پور چٹاں (گجرات) سے ہوئی۔ ائیر پورٹ سوسائٹی اسلام آباد سے ہونے والی ''دوسری رخصتی'' نے سینہ چیر دیا، دل چھلنی اور کلیجہ کرچی کرچی کر دیا۔ سچ پوچھیں تو جدائی اور رحلت کے اس گہرے زخم کی کسک مدتوں محسوس کی جاتی رہے گی۔10 ستمبر کو معمولی سا بخار ہوا' درد کی شدت بڑھی تو ڈاکٹر سے رجوع کیا۔ اگلے روز قریبی میڈیکل سنٹر چلے گئے، بخار کے تیسرے روز ڈینگی کے جواز پر ایڈمٹ کرایاگیا۔ 29 ہزار پلیٹ لٹس ' 14 ہزار اور پھر 10 ہزارپلیٹ لٹس کی رپورٹ ملتی رہی' ساتھ ہی معالجین کی طرف سے تسلی کا پروانہ ملتا کہ 5 ہزار پلیٹ لٹس کے مریض بھی تندرستی کے میدان میں آجاتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی غفلت ' کم تجربہ یا حالات سے عدم واقفیت نے ایک قیمتی زندگی کو ہم سے دور کر دیا۔ یہ درست ہے کہ موت کا دن لوح محفوظ پر مقرر ہے مگر جان بجانے کی کوشش کو بھی قدرت نے اولین مقصد قرار دیا'' کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں''پاکستان بھر میں ایسے کئی روح کش مناظر سامنے آتے ہیں جہاں مریض تکلیف اور لواحقین کے مصائب وکرب سے زیادہ معالجین فیس اور بل کو اہمیت دیں۔اللہ کریم ہم سب پر رحم کرے اور ہمارے دلوں کو لالچ اور طمع کے سایے سے دور رکھے !! ایسا لگتا ہے کہ کل ہی بات ہے جب ہم نے ائیر پورٹ سوسائٹی میں پلاٹ پسند کیا۔ بیگم صاحبہ نے نقشہ پسند کیا' تعمیر و آرائش میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ڈور بل سے کمروں کے بلب تک کاخود انتخاب کیا اور جب مکان تعمیر ' تزئین اور آرائش کے مراحل مکمل کر چکا تو مکیں خود شہر خموشاں میں جابسی۔ ہمارے لئے وصال اور بے نیازی کا یہ دوسرا زخم تھا 20 برس قبل 2001 میں والدہ ماجدہ دارالفناءسے دارالبقاءمنتقل ہوئیں۔ امی جان کی جدائی سے دکھ اور الم کا آسمان سوا تیز سے پر آگیا۔یہ وہ دن تھے جب اسلام آباد میں ٹریڈرز سیاست اونچی اڑان پر تھی۔ تاجر کمیونٹی کے ٹاپ ٹن لیڈر میں ہمارا نام بھی شامل تھا ایسے حالات میں ماں کی دعاوں کا سایہ اٹھ جائے تو خوف اور اندیشے کیسے انسان کو گھیرتے ہیں اس کا اندازہ بہت سے دوستوں کو ہے۔
مجھ کو معلوم نہ تھا تیری قضا سے پہلے
نیئر تاباں بھی زمین بوس ہوا کرتے ہیں
والدہ ماجدہ کے بعد مصیبت ونکبت کا دوسرا زخم شریک سفر کی جدائی نے دیا۔زخم ایسا ہے کہ جس نے مجھ جیسے مضبوط اعصاب کے مالک کو جھنجھوڑ دیا بلکہ توڑ دیا۔38 سالہ رفاقت میں بہت کم شکوہ' فرمائش اور مطالبات سامنے آئے۔ صابرہ تھی قناعت پسند اور توکل اللہ کا عکس تھی گزشتہ ایک سال سے تو وہ کسی اور دنیا کا حصہ بن گئی تھی مسزکا زیادہ وقت وظائف میںگزرتا' درود شریف کا ورد معمول تھا۔اشاروں میں ایسی بات ( پیشن گوئی) کر دیتی جسے سن کر حیرت کے کئی در کھل جاتے جب وضاحت پوچھی جاتی تو بات کو صبروشکر کے سہارے میں چھپا دیتی۔
حضرت اقبال نے کہا تھا
نہ پوچھ ان فرقہ پوشوں کی ارادت ہوتو دیکھ ان کو
ید بیضٰی لئے بیٹھے ہیں اپنی آستیون میں
ائیر پورٹ سوسائٹی میں رہائش پڑیر ہوتے ہوئے چند سالوں میں بیگم صاحبہ نے محبت اور عقیدت کے ایسے چراغ جلائے جس کی روشنی آج بھی اصلاح وخدمت کے اثرات دکھا رہی ہے۔ بڑے جنازے کے بعد رخصت ہونے والی خدائی خدمت کارخاتون کے با رے میں خطیب فیصل مسجد قاری محمد اخلاق مدنی نے کہا تھا '' جنازے میں شریک لوگوں کا جم غفیر شہادت دے رہا ہے کہ نیک روح عبادت' بندگی اور قبولیت کے کس درجے پر فائز تھی ''اللہ کریم جدا ہونے والوںکو جنت کے اس حصہ میں آباد رکھے جو اس کے اور اس کے محبوب رسول محتشم? کے پسندیدہ ہوں۔ وہ ٹھیک کہا کرتی تھی دلوں کا اصل قرار اور چین ذکر الہیٰ میں ہے دورد شریف کا ورد ہر مسئلہ کی چابی ہےموت طلب نہیں یاد رکھنے والی شے ہے معافی مانگنا بڑے لوگوں کا کام ہے معاف کر دینا خدائی صفت ہے دستر خوان آپ کو اللہ سے قریب کر دیتا ہے خاموش خدمت قرب الہیٰ کا ذریعہ ہے!!آج احباب ' قرابت دار اور محلہ دار مرحومہ کی سخاوت اور انسان دوستی کے پہلوو ں کا اظہا رکرتے ہیں تو حیرت زدہ ہو جاتا ہوں کہ اسے خدمت انسانیہ کے لیے وقت کیسے اور کہاں ملتا تھا؟ بہت سے ایسے صدقہ جاریہ بھی ہیں جن کی آشنائی اس کی موت کے بعد ہوئی۔ اللہ پاک ان کے دامن نیکوں سے بھرپور رہے ' آمین