فیض عالم  کو ا چلا ہنس کی چال

قاضی عبدالرﺅف معینی
امت مسلمہ تہذیب و تمدن کے حوالے سے کسی بھی معاشرہ یا قوم کی تقلید کی محتاج نہیں ۔جس امت نے دنیا کو تہذیب و تمدن سے آشنا کیا اس کو کسی کی پیروی کی بھلا کیا ضرورت ہے ۔ اسلام نے کردار و اطوار ، آداب اور علم الاخلاق کے حوالے سے وہ رہنما اصول متعین کیے جن کی اہمیت و افادیت آج بھی مسلم ہے ۔اسلام ایک ہمہ گیر مذہب ہے اور ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاق و سیرت و کردا کی نہایت اعلیٰ اور مکمل تعلیم پیش کر دی اور اس پر عمل پیرا ہو کر بھی دکھا دیا۔آپ کی سنہر ی تعلیمات سے ایک ایسا مثالی معاشرہ تشکیل پایا جس نے دنیا بھر میں اپنے اثرات دکھائے ۔ان تعلیمات میںمساوات، عدل و انصاف، خدمت خلق، احساس ذمہ داری، وعدہ کی پاسداری، رواداری ، برداشت ،احترام انسانیت اور اخلاقیات پر زور دیا گیا۔ایک مسلمان کو کسی قسم کے احساس کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔یہ حقیقت ذہن میںرہے کہ علمی و عقلی لحاظ سے اسلامی تہذیب دنیا کی بہترین تہذیب اور اسلامی تمدن دنیا کا بہترین تمدن ہے اور یہ بھی کہ اسلامی تہذیب ہمیشہ سے دنیا کی تہذیب و تمدن سے ممتاز و منفرد ہے۔ اسلامی تہذیب و تمدن میںمعنوی حسن زیبائی بدرجہ اتم موجود ہے ۔بات سچ بھی ہے اور رسوائی کی بھی کہ موجودہ دور کے اکثر ممالک میں اسلامی اصولوں کا نام و نشان تک نظر نہیں آتا۔ ان ممالک کے مسلمان دیگر ممالک کی اندھی تقلید میں اسلامی سنہری اصولوں سے بھاگ گئے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ 
کوا چلا ہنس کی چال ، اپنی بھی بھول گیا
ان ممالک میں اخلاقی زوال، بد تہذیبی اور بے راہ روری کو دیکھ کر یہی سمجھا جاتا ہے کہ یہ اسلامی معاشرتی اصول ہیں۔اوپر سے ہمارے دیسی و کاٹھے انگریز،سوشل میڈیا اور مغربی میڈیا اس آگ پر تیل ڈال کر مزید بھڑکا رہے ہیں اور اسلام کے خلاف پراپگنڈہ میں تیزی آرہی ہے۔اس صورت حال سے دور حاضر کا مسلم نوجوان شکوک و شبہات کا شکار ہے ،مغربی معاشرہ کی زلفوں کا اسیربھی ہو چکا ہے اور اسلامی نظام حیات کے حوالے سے بد گمان ہو تا جارہا ہے۔ملک کے بد ترین معاشی و معاشرتی حالات سے دل برداشتہ ہو کر یہاں سے فرار کے خواب دیکھتا رہتا ہے۔بہت سے قیمتی نوجوان اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔کوئی آئے کہ امت مسلمہ کی رہنمائی کا حق ادا کرے او ر راہ سے بھٹکے اس قافلہ کو منزل تک پہنچا دے ۔آج کے نوجوان کو شاید یہ سبق ایک بار پھر یاد کروانے کی ضرورت ہے کہ 
کبھی اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا جس کا تو ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
لیکن یہ سبق بھلا کون پڑھائے گا۔بنیادی طور پر یہ تعلیمی اداروں کا کام تھا جو ایک دور میں تعلیم بھی دیتے تھے اور تربیت بھی کرتے تھے۔ ”میکالے “ کا ککھ نہ رہے جو اس خطہ پاک کے نظام تعلیم کے ساتھ بڑا کھلواڑ کر گیا۔اب یہ موجودہ نظام تعلیم اور تعلیمی ادارے نا اہل کلرک اور نالائئق منشی پیدا کرنے کے کارخانے بن چکے ہیں۔تعلیم جیسا مقدس پیشہ منافع بخش تجارت بن چکا ہے ۔”ایک ٹیلے فون کال پر ٹیوٹر آپ کی دہلیزز پر“ جیسا نعرہ بھی سننے کو ملا۔تعلیمی اداروں میں اخلاقی زوال کا یہ عالم ہے کہ چھٹی کے وقت اداروں کے سامنے سے شریف مرد و زن کا گزرنا محال ہو جاتا ہے ۔اکبر الہ آبادی کا یہ شعر بے ساختہ یہ زباں پر جاری ہو جاتا ہے
یوں قتل سے بچوں کے بدنام نہ ہوتا 
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
 موجودہ نظام تعلیم کی تعلیمی استعداد کی حالت یہ ہے کہ سائنسی علوم اور عمرانیات میں اندھا دھند پی ایچ ڈی کی ڈگریا ں تقسیم کی جارہی ہیں ۔شاید یہ بھی سارا کاپی پیسٹ کا کمال اور جادو گری ہے ورنہ پی ایچ ڈی ایسی اعلیٰ ڈگری کے نتیجہ میںمعاشرہ کو کوئی ایک آدھ ایجاد ہی مل جاتی یا چند صاحبان علم و دانش ہی پیدا ہو جاتے۔تحقیق اور ترقی جسے جدید دنیا ریسرچ اینڈ ڈیویلپمینٹ کے نام سے جانتی ہے،کا ملک عزیز میںنام و نشان تک نہیں۔ سائنس کے کسی بھی میدان کو دیکھ لیں ہر شعبہ ہی بانجھ نظر آتا ہے۔ 
 پیارے پڑھنے والے ترقی یافتہ اقوام کی تقلید کرنا اور ان کے نقش قدم پر چلنا بہت اچھی بات ہے۔ لیکن اس صورت میں جب ان کی بہترین اور مثبت اقدار پر عمل کیا جائے ۔ملک عزیز میں چونکہ گنگا الٹی بہتی ہے اس لیے ہم نے ان اقوام کی اعلیٰ خوبیوں اور مثبت اقدار کو تو نظر انداز کر دیا اور عادات بد کو اپنا طرز عمل و زندگی بنا لیا۔سچی بات تو یہ ہے کہ بعض معاملات میںمغربی دنیا کی اندھی تقلید نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔وقت آگیا ہے کہ دور حاضر کے چیلنجز کا مد نظر رکھتے ہوئے ایسے ادارے بنائے جائیں جو نوجوانوں کی تربیت و رہنمائی کریں۔ ایسے صاحبان علم جن کو اللہ پاک نے تحریر و تقریر کی صلاحیت بھی دی ہے وہ یہ ذمہ داریاں اٹھائیں چاہے چھوٹے پیمانے پر ہی ہو۔گزشتہ دنوں پروفیسر ڈاکٹر علی اکبر الازہری کی دعوت پر شہر لاہور کی ایک بستی گلبرگ میں ایک قومی ادارہ” مرکز تجدید فکر و دانش“ میں جانے کا اتفاق ہوا۔خوشی ہوئی کہ اس ادارہ کا مقصد فکر و دانش کو فروغ دینا،اور جدید دور کے مسائل کا حل پیش کرنا ہے ۔یہ مرکز مکالمہ کے فروغ، علمی مباحثے،تحقیق کے ذریعے فکر و دانش کے احیا ءکے لیے کوشاں ہے تاکہ فرد کو اس قابل بنا دیا جائے کہ وہ دور حاضر کے چیلنجز کاسامنا بہتر انداز میںکرنے کے ساتھ اپنی فکری وراثت کو زندہ رکھ سکے۔اللہ پاک منتظمین کو ان مقاصد کے حصول میں کامیاب کرے۔

قاضی عبدالرئوف معینی 

ای پیپر دی نیشن