منظر الحق
manzarhaque100@gmail.com
ہر محلے میں ایک پرچون کی دکان لازما ہوا کرتی تھی،یہ گزرے وقتوں کی یادیں ہیں اور ان دکانوں کا کرتا دھرتا عموما ایک عجوبا شخصیت کا مالک ہوا کرتا تھا۔ان دکانوں میں ہر قسم کی گھریلو اشیاءدستیاب ہوتی تھیں،سوءسے لیکر کھانے پینے کی بیشتر چیزیں وافر مقدار میں موجود ہوتیں اور اگر کوءچیز نہیں ملتی،اس کو اگلے دن ضرور فراہم کرنے کا وعدہ ہو جاتا تھا۔
ان دکانوں کی ہیت مختلف ہوا کرتی تھی،کوءٹین کے کھوکھے میں بنی ہوتی،کسی کا ڈھانچہ گھاس پھونس و لکڑی کا ہوتا اور کوءمٹی کی دیواریں کھڑی کر کے بناءجاتی۔ان سب میں ایک قدر مشترک ہوتی،یہ کسی غریب شخص کی رہائش گاہ میں بناءجاتی تھی اور اس سے ایک پنتھ دو کاج کا کام لیا جاتا تھا۔روشنی کے انتظام کے لیئے برابر کے گھر سے ایک تار مستعار لیا جاتا،ایک چھوٹا سا قمقمہ اندھیری رات میں مدھم ٹمٹماتی روشنی کا باعث بنتا اور دکان میں رکھی چیزوں کے دیو ہیکل سائے چھوٹے بچوں کا دل سہمانے و دہلانے کا کام سر انجام دیتے۔
اس میں داخل ہونے کے لیئے سامنے پڑی ہوئی بوسیدہ، پیوند زدہ ٹاٹ کی چق ہٹانی پڑتی تھی،کبھی کبھار سرکنڈوں سے یہی کام لیا جاتا تھا اور یہ دھوپ و ہوا کو روکنے کی ناکام کوششیں سر انجام دیتی تھیں۔اگر کبھی کبھار لکڑی کا کواڑ دوکان کے دروازے پر پہرہ دیتا نظر آیا،یہ یقینا دوکاندار کے متمول ہونے کی سمت اشارہ کرتا اور دوکان کا اندرونی حلیہ بھی اسی بات کی غمازی و عکاسی کرتا۔کسی دوکان کا فرش مٹی کا ہوتا، کہیں پتھر بچھے ہوئے نظر آتے اور کہیں نیم پختہ،سخت زمین ہوتی۔یہ سب اس دوکاندار کے وسائل پر مبنی ہوتا،پکا فرش آسودہ حالی کا اظہار کرتا اور کچی مٹی کی بوسیدہ نرم و گرم زمین ،دوکاندار کی دگرگوں مالی حالت ظاہر کرتی۔
دکان کے اندر داخل ہوتے ہی خوشبوو¿ں کا ایک زوردار بھبکا آتا،اس میں کٹھی میٹھی نمکین اور عجب قسم کی ملی جلی خوشبوو¿ں کی آمیزش ہوتی اور چھوٹے بچے اپنی ناکوں کو سکیڑتے نظر آتے یا ان پر اپنے ننھے منھے ہاتھ رکھ لیتے۔جہاندیدہ اشخاص اس بو باس کے عادی ہوتے،وہ فورا اپنی مذکورہ مصنوعات اور گھریلو ضروریات کی چیزوں کی طرف رخ کرتے اور آنکھ بند کیئے ہوئے انھیں چننا شروع کر دیتے۔سبزیاں و پھل،دال و چاول،نمک و مرچ اور الغرض روزمرہ استعمال کی تمام اشیاء وہاں میسر ہوتیں تھیں۔
پرچون کی دکانیں امیر و غریب محلوں کی روزمرہ کی ضروریات پوری کرتی تھیں،گھر میں اچانک کسی چیز کی کمی ہوئی اور گھر کے نوکر چاکر یا چھوٹے بچے کو وہاں دوڑا دیا گیا۔ایک لمبی چوڑی کاغذی فہرست اس کے ہاتھ میں تھما دی جاتی،یہ کسی بھی بھاءبھلکڑ کی یاد دہانی کا ذریعہ بنتی اور اگڑم بگڑم چیزوں کی خریداری سے بھی بچا لیتی۔
دکاندار کی شخصیت پر بھی ایک اچٹتی سی نظر ڈالنی ضروری ہے،یہ شخص صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس ہوتا اور چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ کی چادر اوڑھے رکھتا۔وضع قطع کے لحاظ سے اوسط قد و کاٹھ،کبھی کوءناٹا یا لمبا بھی نکل آتا اور بیشتر خوش اخلاق و حلیم الطبع ہوتے۔ان اداو¿ں کے بنا وہ بچوں میں خاصے مقبول و ہردلعزیز ہوتے،وہ کوءنہ کوءشعبدہ بازی کا گر بھی جانتے اور اس سے بچوں کو محظوظ رکھتے۔چرب زبانی ان کا شعار ہوتا،مختلف اصلی قصے و کہانیوں کو توڑمروڑ کر پیش کرتے اور فرضی کہانیاں سنا سنا کر بچوں کا دل لبھاتے۔وہ ظرافت میں باکمال ہوتے،اللٹپ فضول مہمل باتوں کا اپنے انوکھے و منفرد مزاحیہ انداز میں ذکر کرتے اور بچے ان کے گرویدہ ہو کر ان کے گن گاتے نظر آتے۔
ایک زمانے میں پرچون کی دکانوں سے چینی و آٹے کی خریداری کرنے کے لیئے راشن کتاب کی ضرورت پڑتی تھی،یہ کتابچے حکومت کی زیر نگرانی عوام میں تقسیم کیئے جاتے تھے اور ہر گھر کو محظ ایک کتابچہ دیا جاتا تھا۔چند خاندان اپنا حصہ دوسروں کو بیچ دیتے تھے،اس سے ان کی مالی معاونت ہو جاتی اور میٹھے پیروں کی چینی کی پیاس بجھ جاتی تھی۔ہم بھی راشن کارڈ پکڑے قطار میں کھڑے ہو جاتے تھے،اپنی باری کا صبر و تحمل سے انتظار کرتے اور راشن کے حساب سے جو کچھ ملتا،وہ لے کر گھر کا رخ کرتے۔
دو چار دکانداروں کا حلیہ ذرا تفصیلا بتانا ضروری سمجھتا ہوں،ناظم آباد کی رائش گاہ کے آس پاس ایک پرچون کی دوکان تھی اور وہاں ایک پتلے دبلے،منحنی شخص نے اپنا جادو جگا رکھا تھا۔وہ سفید ملگجی کرتے پاجامے میں ملبوس رہتے،پان کی کثرت نے ہونٹوں پر لال لکیر کھینچ دی تھی اور ہر سو مسکرانے سے آنکھوں و ہونٹوں کے گرد جھریاں پڑ گءتھیں۔ان کی بیگم چھوٹے قد کی تھیں،کھلتا ہوا گندمی رنگ اور لمبے کالے بالوں پر سفید دوپٹہ سجا رہتا تھا۔وہ اپنے میاں کو کبھی اصلی نام سے نہیں پکارتی تھیں،بلکہ بیٹے(مشید ) کے ابا سے انھیں پکارا و للکارا جاتا تھا اور وہ جھوم جھوم کر گانے گا کر ان کو جواب دیتے۔
دوسرے حضرت ان سے بالکل متضاد شخصیت کے حامل تھے،خوب موٹے پر پستہ قد اور سر کے بال قبل از وقت رخصت پر چلے گئے تھے۔آنکھیں دھنسی ہوئیں،جن کے سامنے موٹا سا کالا چشمہ رکھا ہوا تھا اور سپاٹ گول چہرہ،جس پر شاید کبھی مسکراہٹ نے قدم نہیں رکھا۔ان کا لہجہ درشت،وہ صرف کام سے کام رکھتے اور بچے ان کی آس پاس جانے سے گھبراتے تھے۔
ہمارا بچپن ان دکانوں کے چکر کاٹنے میں گذرا،مجال ہے کہ کسی بھی دن ان کی زیارت سے ہم محروم رہے ہوں اور ہماری آنکھیں ٹھنڈی نہ ہوءہوں۔والدہ جس چیز کے لیئے پیسے دیتی تھیں،اس کے علاوہ چند مٹھائیوں کا خریدنا ایک لازمی امر تھا اور اگر پھر بھی چند پیسے بچے تو چورن،بڑھیا کے بال،میٹھی بیڑی یا بتاشے خریدے جاتے۔بیچاری والدہ نے کبھی ہماری سرزنش نہیں فرمائ،بلکہ مسکرا کر دیکھ لیتیں اور ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیتیں۔
اب کچھ ذکر کھیل کود کا بھی ہو جائے،ہر قسم کے کھیلوں کا سامان وہاں موجود ہوتا اور ان کو دیکھ کر بچوں کی بانچھیں کھل جاتیں۔کہیں گیند بلا رکھا نظر آتا،کہیں رنگ برنگی پتنگیں ٹنگی ہوتیں اور کسی کونے میں لٹو،کنچے اور لوڈو سجا ہوتا۔بچے بھاگتے دوڑتے کھیلوں کی سمت جاتے،ایک ایک کھیل کو الٹ پلٹ کر دیکھتے اور پھر اپنے پیسے گننے کی فکر میں لگ جاتے۔دوئنی ،چونی اور اٹھنی جیبوں سے نکالتے،کھیل کی پوری رقم کو دیکھتے اور پیسے پورے دیکھ کر خوشی سے دل بلیوں اچھل جاتا۔چہرے پر مسکراہٹیں عود کر آتیں،اپنی پوری بتیسی منھ کھول کر دکھاتے اور ایک دوسرے کو منھ چڑاتے۔
پرچون کی دکان کا حساب کتاب روزانہ ہوتا،ہر گھر والا کچھ نہ کچھ پیسوں کا ادھار کرتا اور ہفتہ یا مہینہ وار اس کو چکا دیا جاتا۔قرض و ادھار کا کتبہ دکان کے دروازے پر آمیزاں ہوتا،ادھار مانگ کر شرمندہ نہ کریں اور اس کے باوجود بیشتر گھرانے اس کتبے کو نظرانداز کردیتے۔مہینے کے آخر میں حساب کی چٹھی گھر پہنچ جاتی،سارا قرضہ و ادھار چکا دیا جاتا اور سارے لوگ چین کی بنسی بجا کر سکون و اطمینان کا سانس لیتے۔
موجودہ زمانے نے اس قسم کی دکانوں کو جہنم رسید کیا،وہ سارے دوکاندار خالق حقیقی سے جا ملے اور ان کے فرزندان نے تعلیم و تدریس کو ترجیح دی۔ہمارا معاشرہ ان افراد کو فراموش کر چکا ہے،ایسے بے شمار تاجر تاریخ کے اوراق میں بے نام کردار ہیں اور یہ ان سارے چھوٹے دکانداروں کو خراج تحسین پیش کرنے کی ایک ادنی سی کاوش ہے۔