26ویں کے بعد اب 27 ویں ترمیم کی چوٹی سر کرنے کی مہم۔
معلوم نہیں کیوں حکومت خود کو رستم اور پیپلز پارٹی والے خود کو سہراب ثابت کرنے پر تل گئے ہیں۔ خدا خدا کرکے بمشکل ابھی 26ویں آئینی ترمیم کا کانٹا حلق سے نکلا تھا کہ اب شنید میں آرہا ہے کہ حکومت اور اسکی اتحادی جماعت 27ویں آئینی ترمیم کا ڈول بھی ڈال رہی ہے۔ نجانے اس بار کنویں سے کیا برآمد ہوگا۔ اب یہ چاہ کنعاں تو نہیں ہے کہ اس میں سے ماہ کنعاں برآمد ہو۔ لازم نہیں کہ ہر بار آپ کی مراد برآئے۔ مولانا فضل الرحمان کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی نئی آئینی ترمیم کو منظور نہیں ہونے دینگے۔ گرچہ ایسا ہی فاضلانہ عاجلانہ عالمانہ بیان وہ 26ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے بھی بڑے وثوق سے دے چکے تھے اور بعد میں پی ٹی آئی اور حکومتی اتحاد کو چرخے کی طرح گھما گھما کر ایسی گھمن گھیری میں ڈالا کہ وہ دونوں چکرا کر رہ گئے اور مولانا نے من مرضی کا سودا کیا۔ یعنی فیصلہ کیا اور آخری وقت میں جب لگتا تھا کہ مولانا اڈیالہ کے قیدی کے شانہ بشانہ ہونگے‘ وہ حکومتی اتحاد کے جہاز میں سوار ہوگئے۔ اب وہ لاکھ کہیں کہ نئی کسی ترمیم کی منظوری میں حصہ دار نہیں بنیں گے‘ مگر کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ اس بار شاید حکومتی اتحاد بھی انکی زیادہ خاطر مدارت نہیں کریگا۔
بہرحال اب خود حکومت بھی ذرا عقل کو ہاتھ مارے‘ گرم گرم کھانے سے کبھی منہ جل بھی جاتا ہے اس لئے پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا۔ ورنہ پہلے کیوں نہیں 26ویں آئینی ترمیم ٹھوک بجا کر کی گئی کہ بعد میں اس قدر جلد اس میں ترمیم کرنی پڑ رہی ہے۔ ہمیشہ پہلے تولا جاتا ہے پھر بولا جاتا ہے۔ کمرہ امتحان میں پرچہ حل کرنے کے بعد اچھی طرح پڑتال کی جاتی ہے کہ کچھ رہ تو نہیں گیا۔ اب دیکھنا ہے کہ نئی ترمیم کا مسئلہ ہمارے ہیجان خیز سیاسی ماحول میں کتنی ہلچل مچاتا ہے۔ پی ٹی آئی والے اپنی پرانی ہزیمت نہیں بھولے ہونگے وہ تو مزید شدت سے اسکی مخالفت کرینگے۔ فضل الرحمان کی خیر ہے‘ انہیں پھر بلاول منالیں گے ورنہ نوازشریف کو جلد واپس آنا پڑیگا کیونکہ اب وہ تنہاءآصف زرداری کے قابو میں آنے کے نہیں رہے۔
پی ٹی آئی بالآخر عدلیہ پارلیمانی کمیٹی میں شامل ہونے پر راضی ہوگئی۔
”ماڑی سی تے لڑی کیوں سی“ والی بات اب پی ٹی آئی کے اس فیصلے سے سمجھ میں آرہی ہے کہ لاکھ انکار کے بعد بالآخر انہوں نے آئینی ترمیم کے بعد بننے والی پارلیمانی کمیٹیوں کو تسلیم نہ کرنے‘ ان میں شریک نہ ہونے کے فیصلے کے برعکس عدلیہ کے حوالے سے بنی پارلیمانی کمیٹی میں شرکت کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو باقی کمیٹیوں میں کیا کانٹے لگے ہیں کہ ان کو چھونے سے ہاتھ زخمی ہونے کا ڈر ہے۔ جو غلط ہے ناجائز ہے‘ وہ غلط ہی ہوتا ہے‘ کسی صورت جائز نہیں ہو جاتا۔ اگر نہیں تو کسی بھی کمیٹی میں نہ بیٹھتے۔ یہ کیا کہ ایک تو حلال ہے‘ باقی سب حرام ہیں۔ یہ کیا چل رہا ہے۔ پی ٹی آئی میں۔ ہر رہنما اپنی اپنی بھانت بھانت کی بولی بول رہا ہے اور مرشد کی سنی ان سنی ہو رہی ہے جس کی وجہ سے وہ دیکھ لیں کبھی شیرافضل کو کبھی فیصل چودھری کو اپنے سے دور کر دیتے ہیں اور کبھی انہیں پھر اپنے قریب لے آتے ہیں۔ یہ عجیب کھیل ہے جو کھیلا جا رہا ہے۔ پہلے ایک وکیل فیصل چودھری نے بانی کی قید تنہائی کا سہولتوں کی عدم دستیابی کا رونا رویا اور عدالت میں درخواست دی‘ انکے بعد اب کپتان کی ہمشیرہ بھی یہی بات دہرا رہی ہیں۔ فیصل چودھری کی اس شرارت پر جسے وہ اپنی کارکردگی ہی کہیں گے‘ سننے میں آیا ہے کہ کپتان نے اسے پھر گلے لگا لیا ہے۔ آگے خدا جانے کیا سچ ہے۔ شاید قیدی بھی یہی چاہتا ہے کہ اس پر ظلم و ستم کی کہانیاں بڑھا چڑھا کر عوام کے سامنے پیش کی جائیں جس طرح بھٹو کے خلاف ضیادور میں ان کے مخالف افتخار تاری کی دکھی کہانیاں میڈیا پرعام تھیں۔ قیدی کےاپنے رہنما تو انہیں اخبار‘ ٹی وی اور لائٹ سے بھی محروم کرنے کے دعوے کرتے ہیں۔ شکر ہے کھانے اور پانی بند کرنے کی بات کرکے عوام کو رلایا نہیں جا رہا۔ ورنہ خواہش تو سب کی یہی ہے کہ عوام بپھر کر سڑکوں پر نکلیں۔ خود قیدی بھی یہی چاہتے ہیں کہ انکی پلاننگ کے مطابق ان کی رہائی کی تحریک چلائی جائے اور انہیں جیل سے نکالا جائے۔ اب تو امریکہ اور برطانیہ کے پارلیمنٹیرینز کی آوازیں بھی ان میں شامل ہو گئیں۔ جی ہاں وہ جن کی غلامی سے آزادی کیلئے قوم کو جگانے کے خواب دکھائےجا رہے تھے۔ آج وہی انقلابی خود انہی سے اپنی رہائی کیلئے مدد چاہتا ہے۔ ہے ناں کمال کی بات۔ مگر سوچنے سجمھنے کی صلاحیت سے محروم مرشد کے مست موالی. اسے بھی کوئی مستانہ رمزکہہ کر خوشی سے دھمال ڈال رہے ہیں۔ انہیں کون سمجھائے۔۔اصل حقیقت۔۔
ایران اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی سے باز رہے‘ امریکہ‘ برطانیہ۔
بے حسی اور شقاوت قلبی کی اس سے بڑی اور بری مثال کیا ہوگی کہ امریکہ اور برطانیہ نے اسرائیل کی طرف سے ایران پر فضائی حملوں کو درست اور جائز قرار دیا ہے۔ اسکے ساتھ ہی نہایت ڈھٹائی سے انہوں نے ایران کو کہا ہے کہ وہ کسی جوابی کارروائی یعنی اسرائیل پر حملوں سے اجتناب کرے۔ یہ تو کھلم کھلا ذبح کرنے واالے کو ہلہ شیری دینے والی بات ہے۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ یہ دونوں ممالک جو انسانی حقوق کے بھی سب سے بڑے علمبردار بنے ہوتے ہیں‘ اسرائیل کی تمام بداعمالیوں ، مظالم ، بدمعاشیوں اور مجرمانہ کارروائیوں کے باوجود اسے جو چاہے کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اور اسکی حمایت زبانی کلامی نہیں‘ عملی طور پر بھی کرتے ہیں۔ انہی کی فوجی اور مالی امداد کی بدولت جس میں یورپی اتحاد کا بھی بڑا ہاتھ ہے‘ اس وقت مشرق وسطیٰ میں اسرائیل ہر طرف آگ لگاتا پھر رہا ہے۔ قتل و غارت کا بازار گرم کئے ہوئے ہے۔ غزہ‘ بیروت کو ملبے کا ڈھیر بنا رہا ہے‘ ہزاروں بے گناہ شہریوں کو شہید کر دیا‘ لاکھوں بے گھر ہیں‘ عالمی برادری کی بے حسی کی وجہ سے ہی اب وہ شام‘ مصر اور عراق کے بعد ایران کو بھی للکار رہا ہے۔ یہ تو سراسر پٹرول کو شعلہ دکھانے والی بات ہے۔ کیا عالمی برادری کو اس کا اندازہ نہیں تھا کہ اس کے بعد کیا ہوگا۔ اس کے باوجود انہوں نے اسرائیل کو نکیل ڈالنے کی بجائے جن پر اس نے حملہ کیا ہے‘ انہیں بدلہ نہ لینے کی تلقین کر رہا ہے۔ انکی اس احمقانہ خواہش پر اب بھلا کون کان دھرے گا۔ کیا امریکہ اور برطانیہ والے بھول رہے ہیں کہ یہ ایران ان کا سابق بڑا حلیف اور مشرق وسطیٰ کا پولیس مین کہلاتا تھا۔ جس پر وہ دل و جان سے فدا تھے اور آج یہ حال ہے کہ:
کون مانے گا کسے آج یقین آئے گا
ہم وہی ہیں جو کبھی جان سے بھی پیارے تھے
یہی ایران آج مغرب کو اپنا سب سے بڑا دشمن نظر آتا ہے جو کل تک انکی آنکھوں کا تارا تھا۔ آج خار بن کر انکی آنکھوں میں چبھ رہا ہے۔ اب وہ جانتے ہیں کہ کہیں یہ خار خنجر بن کر انکے پالتو غنڈے کے سینے میں پیوست نہ ہو جائے۔ اس لئے اپنے لے پالک پالتو کو بچانے کی کوشش میں ہیں۔ یہ تو قاتل کو سزا سے بچانے والی بات ہے۔ مقتول سے رتی بھر کسی کو ہمدردی نہیں‘ وہ اس قتل پر کسی کو رونے یا ‘ قصاص لینے کی بھی اجازت دینے کو تیار نہیں۔