عمومی طور پر وطن عزیز میں زیادہ تر موسم گرم رہتا ہے لیکن تین ماہ کی سردی اور ایک دو ماہ کی قابل برداشت گرمی سے خوشگوار احساس ہوتا تھا جھلسا دینے والی گرمی کی تپش سے تنگ لوگ سردیوں کا بڑا بےتابی سے انتظار کرتے تھے لیکن پچھلے چار پانچ سال سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے قدرت ہم سے روٹھ گئی ہے سردیوں کی ابتدا گرمیوں سے زیادہ تکلیف دہ ہے سردیاں ابھی آئی نہیں لیکن عذاب پہلے آ گیا ہے۔ لگتا ہے موسم بھی ہمارے قومی مزاج کی طرح انتہا پسند ہو چکے ہیں۔ گرمیاں ہیں تو کڑاکے نکال دیتی ہیں، لوگ گرمی کی حدت سے بچنے کے لیے اپنا آپ بیچ کر ائیر کنڈیشنڈ لگواتے ہیں بھاری بھاری بجلی کے بل ادا کرتے ہیں جب برسات کا موسم آتا ہے تو وہ سب کچھ بہا کر لے جاتاہے۔ اب تو سردیوں کے آغاز سے قبل ہی سموگ نے جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ لاہور جسے زندہ دلوں کا شہر کہا جاتا تھا اب ایسے لگتا ہے لاہور سے زندہ بھاگ بلکہ کسی منچلے نے تو لاہور کی بے ادبی کی انتہا کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ لاہور کتابوں کا شہر تھا، ہم نے کبابوں کا شہر بنا دیا۔ لاہور پڑھائی کا شہر تھا، ہم نے کڑاہی کا شہر بنا دیا۔ لاہور صوفیوں کا شہر تھا، ہم نے کوفیوں کا شہر بنا دیا۔ لاہور باغوں کا شہر تھا، ہم نے عذابوں کا شہر بنا دیا۔ہم اس سے اِتفاق نہیں کرتے لیکن لاہور کو دنیا کا نمبر ون آلودہ شہر بنانے کے ہم سب ذمہ دار ہیں۔ ہم نے بطور ذمہ دار شہری کے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں لیکن حکومتوں نے بھی لاہور کے ساتھ بڑا کھلواڑ کیا ہے لاہور کی زرخیز زمین جو کہ سونا اگلتی تھی وہاں بے تحاشہ آبادیاں بنا دیں۔ دریائے راوی کو گندا نالہ بنا دیا۔ اب لاہور اینٹوں بجری اور سیمنٹ سے بنی عمارتوں اور کنکریٹ کا سمندر دکھائی دیتا ہے۔ لاہور اپنی استعداد سے کئی گنا زیادہ آبادی والا شہر ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بارود خانہ بنتا جا رہا ہے۔ یہاں مافیاز کا راج ہے بلڈنگ مافیا پیسے لے کر بلڈنگ بائی لاز کو نظر انداز کرکے تعمیرات کروائے جا رہا ہے۔ عملہ تہہ بازاری پیسے لے کر تجاوزات قائم کروائے جا رہا ہے، دھواں چھوڑتی گاڑیوں کو ٹریفک پولیس نے کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے۔ ٹاون پلانر پیسے لے کر دھڑا دھڑ ہاوسنگ سوسائٹیاں قائم کروائے جا رہے ہیں۔
ہماری تمام تر پالیسیاں لاہور سے زیادہ سے زیادہ سرمایہ اکٹھا کرنے کی ہیں۔ حقیقی معنوں میں اب یہ شہر رہنے کے قابل نہیں رہا۔ ٹریفک اتنی زیادہ ہے کہ درجنوں فلائی اوور بنانے درجنوں انڈر پاس بنانے اور کئی سڑکوں کو سگنل فری کرنے کے باوجود ٹریفک کنٹرول نہیں ہو پا رہی۔ تجاوزات، صفائی کا ناقص انتظام، پینے کا آلودہ پانی، بوسیدہ سیوریج اور درختوں کے قتل عام کے نتیجے میں آج لاہوریوں کے لیے سانس لینا دشوار ہو چکا ہے۔ لاہور کی ایک تہائی آبادی الرجی کا شکار ہے۔ ڈپریشن ہائیپاٹائٹس بلڈ پریشر شوگر معدے اور جگر کی بیماریاں عام ہیں۔ نزلہ کھانسی زکام سردرد کو تو اب بیماری نہیں سمجھا جاتا وہ تو طرز زندگی کی حیثیت اختیار کر چکی ہیں۔ سموگ کی وجہ سے آنکھوں میں جلن گلے میں درد سانس میں دشواری لاہور کا طرہ امتیاز ہے۔ کسی نے صحیح کہا تھا کہ لگتا ہے قیامت گزر چکی ہے اور ہم عذابوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔
آج جب انسانی بقا کو خطرہ لاحق ہو چکا ہے تو ہم خانہ پری کے لیے دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں پکڑ رہے ہیں۔ فصلوں کی باقیات کو جلانے والوں کو گرفتار کر رہے ہیں۔ لیکن بندہ پوچھے لاہور میں کونسی فصل ہوتی ہے جس کی باقیات کو جلانے سے سموگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لاہور میں آلودگی کے اسباب کچھ اور ہیں جن پر قابو پانے کے لیے لانگ ٹرم پلاننگ کی ضرورت ہے۔ پلاسٹک کے شاپر بیگ کا بے تحاشہ استعمال، کوڑے کو آگ لگانا، صفائی کا مناسب انتظام نہ ہونا، شہر میں دھواں چھوڑنے والی انڈسٹریز اور ائیر کنڈیشنڈ کے بہت زیادہ استعمال سے خارج ہونے والی گیسوں کی وجہ سے شہر لاہور عذاب سے گزر رہا ہے۔ سب سے زیادہ تکلیف میں بوڑھے اور بچے ہیں یا ایسے لوگ جن کو سانس کا مسئلہ ہے ان کو سانس لینے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آج کل کے موسم میں ڈاکٹروں اور ادویات کا کاروبار کرنے والوں کی موجیں لگی ہوئی ہیں۔ لاہور میں تو کوئی گھر ایسا نہیں جہاں دوائیاں نہ جاتی ہوں لاہوریے زہر آلود آکسیجن کے سہارے زندہ ہیں۔ خطرناک بات یہ ہے کہ آلودہ آکسیجن کے ذریعے زہریلے اجزائ پھیپھڑوں میں جاتے ہیں جو کینسر کا باعث بن رہے ہیں۔ ویسے تو لاہور یونیورسٹیوں اور کالجوں کا شہر ہے لیکن کسی بھی یونیورسٹی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس پر تحقیق ہی کروالے کہ لاہور پچھلے کئی سالوں سے کیوں دنیا کا آلودہ ترین شہر بن چکا ہے۔ سموگ پر کس طرح قابو پایا جا سکتا ہے۔
موسمی بیماریوں سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ اس بارے سیمینار ہونے چاہئیں، تحقیقی اداروں کو کھوج لگانی چاہیے کہ ہم شہریوں کو صاف ستھری آکسیجن کیسے مہیا کر سکتے ہیں۔ پچھلے سال نگران وزیر اعلی محسن نقوی نے مصنوعی بارش کروا کے سموگ کو کم کرنے کی کوشش کی تھی اس پر بھی اچھی خاصی تنقید ہوئی تھی۔ اب وزیر اعلی پنجاب مریم نواز بھی مصنوعی بارش بارے سوچ بچار کر رہی ہیں۔ اگر مصنوعی بارش سے سموگ میں کمی ہو سکتی ہے تو ایک سے زیادہ بار مصنوعی بارش برسانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ سڑکوں پر چھڑکاو¿ سے بھی ڈسٹ پر قابو پایا جاسکتا ہے مستقبل کی تعمیرات کو ماحول دوست بنایا جا سکتا ہے ہر گھر میں چاہے چند فٹ ہی صحیح، گرین ایریا لازمی قرار دیے جائیں۔ اس وقت تک کسی ہاوسنگ سوسائٹی کو پلاٹ فروخت کرنے کی اجازت نہ دی جائے جب تک وہ اپنا گرین ایریا ڈویلپ نہ کر لے سڑکوں کے کنارے زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں تعلیمی اداروں میں ماحولیات کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے۔
موسموں کی انتہا پسندی
Oct 30, 2024