سوشل میڈیا نے جہاں انسانی زندگی آسان کی ہے وہیں لوگوں کی زندگیاں عذاب بھی بنا دی ہیں۔ کوئی ہنی ٹریپ سے بلیک میل ہو رہا ہے اور کسی کی ویڈیو لیک ہو رہی ہے۔ آجکل ہر بڑا بندہ چاہے و شوبز سے ہے یا بزنس مین ہے۔ سیاستدان ہے یا پھر سرکاری آفیسر۔ سب کی ویڈیوز لیک ہو رہی ہیں۔ اسکے پیچھے کون ہے۔ کبھی کسی کی آڈیو لیک سننے کو ملتی ہے، کسی کی نازیبا ویڈیوز سامنے آ جاتی ہیں جن کے اثرات پوری سوسائٹی پربہت برے مرتب ہو رہے ہیں۔ آج سے کچھ سال پہلے بچے بہت معصوم ہوا کرتے تھے۔ جب سے انٹرنیٹ آیا ہے، بچوں سے انکی معصومیت چھن گئی ہے۔ جو باتیں انکو بڑے ہو کر معلوم ہونی چاہئیں وہ اب بچے بچے کو معلوم ہوتی ہیں۔ یہ سب انٹرنیٹ کی وجہ سے ہے۔ چنانچہ اسکینڈلز سامنے آتے رہتے ہیں۔ ہنی ٹریپ آجکل بہت زیادہ پاکستان میں پھیلا ہوا ہے۔ ہنی ٹریپ میں ہوتا کیا ہے۔ کوئی آپکو انٹرنیٹ پر فرینڈز ریکویسٹ بھیجتا ہے جس کے پیچھے ایک پورا گروپ بیٹھا ہوتا ہے جو لوگوں کی پروفائل کو چیک کرتے ہیں،انکی ریکی کرتے ہیں۔ پھر اس بندے کو ٹارگٹ کرتے ہیں۔ اس میں زیادہ تر بڑی عمر کے لوگوں کو شکار کیا جاتا ہے۔ کبھی کال پر بات کرکے انکا سارا بائیو ڈیٹا لے جاتے ہیں، کسی کے ساتھ نازیبا ویڈیو بنا کر ڈیٹا محفوظ کر لیا جاتا ہے اور کچھ لوگوں کو اپنی جگہ پر بلا کر انکی ویڈیوز بنائی جاتی ہیں۔ ایک طرح سے کِڈنیپنگ والا سین ہوتا ہے۔ لیکن اب تو شکار خود بلانے والے کی جگہ پر بھی پہنچ جاتا ہے۔ اس کام میں زیادہ تر کم عمر لڑکیاں شامل ہیں جو کسی نہ کسی جاب کے سلسلے میں آتی ہیں اور ایسے گروپس کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں۔ آجکل کچھ لوگوں نے اسے اپنا بزنس بنا لیا ہے۔ اب پاکستانی میڈیا کے پاس ویڈیو لیک ہو یا آڈیو لیک، اس پر بات کرنے کے سوا کچھ نہیں بچا۔ مجھے کافی لوگوں کی جانب سے ہنی ٹریپ اور بلیک میلنگ کی کالز آتی رہتی ہیں۔ ایک بہت بڑے بزنس مین فیصل آباد کے ہیں۔ ایک دن انکی کال آئی تو وہ رونے لگ گئے۔ میں نے سوچا ان کا ایک ہی بیٹا ہے جس سے انکو بہت پیار ہے۔ ہو سکتا ہے اسکو کچھ ہوا ہو۔ میں نے کہا ڈاکٹر صاحب سب خیریت ہے؟۔ کہنے لگے، نہیں۔ ایک خاتون نے میری زندگی عذاب کی ہوئی ہے۔ مجھے بلیک میل کرتی ہے۔ میں جتنا اس کے لیئے کر سکتا تھا کیا ہے، لیکن یہ خاتون مجھے بلیک میل کرنے سے باز نہیں آرہی۔ مجھ سے 150 کروڑ مانگ رہی ہے۔ کہتی تم مجھے پیسے دو ورنہ میں ت±مہاری زندگی تباہ کردوں گی۔ اfس خاتون کی سرکاری آفیسرز سے دوستی تھی جسکی بنیاد پر وہ بلیک میل کررہی تھی۔ جب میں نے ا±س خاتون کی ہسٹری نکالی تو پتہ چلا کہ اس خاتون کا کام ہی یہی ہے۔ اچھے اچھے امیر لوگوں سے دوستی کرنا اور اپنی خواہشات پوری کرنا۔ وہ یہ دیکھ لیتی ہے کہ کس کو اپنا سوفٹ ٹارگٹ بنانا ہے۔ جب اس خاتوں پر کیس کرنے کی بات آئی تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ نہیں کر سکتا کیوں کہ وہ خاتون میری بیوی اور بیٹے کو ویڈیوز اور آڈیو سنا دے گی جس سے میری عزت کا جنازہ نکل جائے گا۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کو اعتماد میں لیا اوراس خاتون پر کیس کرایا جو 150 کروڑ روپے مانگ رہی تھی۔ جب اسکے کیسز سائبر ونگ میں کھلنے لگے تو اس نے ڈاکٹر صاحب سے معذرت کرکے کیس واپس لینے کو کہا اور ڈاکٹر صاحب مان گئے جس پر مجھے غصہ بھی تھا اور دکھ بھی کہ اتنا سب کچھ کرنے کے بعدکسی ملزم کو چھوڑنا اچھا نہیں ہے۔ سائبر ونگ میں ایسے بہت سارے کیسز آتے ہیں۔ لوگ اپنے کیسز کا پیچھا نہیں کرتے اور کیسز کو ختم کروا دیتے ہیں جو کہ قطعی غلط ہے۔
اب پچھلے دنوں ایک کیس جس نے میڈیا پر بہت سرخیاں بنوائیں، وہ تھا خلیل رحمان قمر کا جو پاکستان کے معروف رائٹر ہیں، جنکے ڈرامے دشمن ملک بھی پسند کرتا ہے۔ خلیل رحمان ویسے تو خواتین پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں مگر ایک خاتون کے ہنی ٹریپ میں آ گئے۔ میں اس کیس کے حوالے سے بھی خلیل صاحب سے رابطے میں تھی۔ جہاں دنیا اسکو برا کہہ رہی تھی وہیں اسکی مینٹل ہیلتھ کی دھجیاں اڑی ہوئی تھیں۔ میں نے جب خلیل صاحب سےکیس کے حوالے سے پوچھا کہ اب گھر کا ماحول کیسا ہے تو انہوں نے کہا کہ میں کسی سے آنکھیں ملانے کے قابل نہیں رہا۔ میری بیٹی کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ وہ میڈیا کے سوالات اور لوگوں کی تنقید کا سامنا کر رہی ہے۔ وہ مزید بلیک میلنگ سے بچنے کے لئے کچھ دن ملک چھوڑ کر یورپ چلے گئے۔ اب انکا کریکٹر ایسا بنا دیا گیا ہے کہ اب ان سے کوئی بھی خاتون بات کرے تو انہیں غلط ہی سمجھا جاتا ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ پہلے لڑکیوں میں شرم ہوتی تھی، وہ اب نہیں رہی۔ اب لڑکیاں اپنی ویڈیوز خود وائرل کرتی ہیں۔ اب نہ عزت کی پروا ہے نہ کسی اور چیز کی۔ یہاں کچھ ویڈیوز بنائی بھی جاتی ہیں جیسے ہمارے معاشرے میں ٹک ٹاک جیسی بیماری ہے۔ اِن لوگوں نے بیہودگی عام کر دی ہے جس سے بچے متاثر ہو رہے ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ گندگی پھیلانے والوں کے خلاف ایکشن لے۔ یہاں تو حکومتی لوگ اپنی جعلی ویڈیوز پر روتے نظر آتے ہیں جیسا کہ کچھ مہینے پہلے عظمیٰ بخاری صاحبہ کی مبینہ نازیبا ویڈیو وائرل ہوئی جو کہ جعلی تھی۔ یہ اتنی غلط چیز ہے کہ ہرگز برداشت نہیں کی جانی چاہیئے۔ کسی کوحق نہیں کہ کسی کی جعلی تو کجا، اصل ویڈیو بھی لیک کرے۔ عظمیٰ صاحبہ میڈیا پر آکر کہتی رہیں کہ میں ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کروں گی۔ وہ سائبر کرائم کے چکر لگاتی رہیں اور کبھی عدالت سے انصاف مانگتی رہیں۔ کبھی سائبر کرائم کے آفس جاتیں اور کبھی وزیر اعلیٰ سے اپیل کرتی نظر آتیں۔ اگر ایک آن ڈیوٹی وزیرِ اطلاعات کو انصاف نہیں مل رہا تو ہم اور آپ کیا ہیں۔ سوشل میڈیا جہاں سہولت فراہم کرتا ہے وہاں مشکلات بھی پیدا کرتا ہے۔ کوشش کریں کہ انجان لوگوں سے دور رہیں۔ اپنی پرائیویسی کو پبلک نہ کریں ورنہ آپ بھی کسی ہنی ٹریپ کا شکار ہو سکتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللّٰہ پاک ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے آمین ثم آمین۔
سوشل میڈیا پر کسی کی عزت محفوظ نہیں
Oct 30, 2024