گزرنے والے دو تین ہفتوں میں 26ویں آئینی ترامیم کا بہت شور رہا اور پوری شد و مد کے ساتھ یہ قصہ ہر قصے پر چھایا رہا۔ قوانین میں ترمیم یا تبدیلی ایک رسمی کارروائی ہے، جو بوقت ضرورت کی جا سکتی ہے۔ اس کا مطلب ہے بہتری کیلئے دستور یا کسی آئین کو تبدیل کرنا۔یہ 20 اکتوبر کی ایک گہری رات تھی۔ میڈیا ہی نہیں، 25 کروڑ عوام نے بھی اس رات کو فوکس کر رکھا تھا۔ سب کی نظریں اسلام آباد پر مرکوز تھیں۔ جہاں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس انعقاد پذیر تھے۔ دونوں اجلاسوں کا رات کے آخری پہر تک انعقاد پذیر رہنا کسی ”خاص مقصد“ سے خالی نہیں تھا۔ ان اجلاسوں کی نسبت سے اسلام آباد میں بہت ہی غیر معمولی گہما گہمی دیکھی جارہی تھی۔ یہ اہم رات تھی، جس میں 26ویں آئینی ترامیم کی منظوری ہونے جارہی تھی بہت سارا ابہام تھا کہا جا رہا تھا کہ ترامیم کی منظوری کیلئے تو حکومت کے پاس مطلوبہ نمبر ہی نہیں۔ پھر ترامیم کیسے منظور ہوں گی؟ نجی ٹی وی چینلز پر تبصرے ہو رہے تھے اور ”نمبر گیم“ کو لے کر تجزیے پیش کیے جارہے تھے۔ تاہم حکومت پر اعتماد تھی کہ اسکے پاس گو پورے نمبر نہیں لیکن وہ 26ویں آئینی ترامیم کو منظور کرانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ بحث چل رہی تھی اور بحث کا حاصل کچھ نہیں تھا۔ بحث کا نتیجہ دونوں ایوانوں میں ووٹنگ کے بعد ہی معلوم ہونا تھا۔ تاہم دوسری جانب پی ٹی آئی بھی سر بکف تھی کہ ان ترامیم کو کسی بھی صورت منظور نہیں ہونے دے گی۔ پی ٹی آئی کو اپنے اراکین پر پورا بھروسا تھا کہ بکیں گے نہ ضمیر بیچیں گے۔ مگر وہ بک بھی گئے اور ضمیر بھی بیچ ڈالے۔ نتائج آئے تو کایا پلٹ چکی تھی۔ سب کچھ حکومت کے حق میں چلا گیا تھا۔ پی ٹی آئی کیلئے تماشا دیکھنے اور احتجاج کے سوا اب کوئی اور چارہ نہیں تھا۔
26ویں آئینی ترامیم کے نکات پر سیاسی جماعتوں کے اتفاق سے لےکر منظوری تک قریباً دو ماہ کے عرصے میں سیاستدانوں کی ملاقاتیں، تجاویز، اختلافات، پارلیمانی پارٹی کی تشکیل، مسودے، روٹھنا منانا یہ سب کچھ ڈیجیٹل میڈیا اور اخبارات کی شہ سرخیوں میں زیر بحث رہا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اس تمام تر عمل سے حکومت اور اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کو سیاسی طور پر کیا حاصل ہوا؟ کس کے ہاتھ کیا آیا۔ حکومت کو کتنا سمجھوتہ کرنا پڑا، اپوزیشن میں رہتے ہوئے کون سب کا منظورِ نظر رہا؟
سب کا ماننا ہے کہ 26ویں آئینی ترامیم کے مسودے کی تیاری سے منظوری تک کے تمام عرصے میں جو شخصیت سیاسی طور پر سب سے اہم اور نمایاں دکھائی دی وہ بلاشبہ جمعیت علماءاسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی تھی۔ مولانا سب سیاستدانوں میں ”ہاٹ فیورٹ“ دکھائی دیے۔ ایک سینئر صحافی اور تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ مولانا نے بڑی ذہانت اور ہوشیاری سے اپنے کارڈ کھیلے۔ اسی لیے حکومت سمیت پی ٹی آئی کی بھی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ ایک اور صحافی اور اینکر پرسن کے نزدیک مولانا سب کی مرکز نگاہ تھے۔ پی ٹی آئی ہر صورت انھیں اپنا ہمنوا بنانا چاہتی تھی۔ پی ٹی آئی رہنما بار بار مولانا کے گھر کے چکر لگا رہے تھے۔ رہنماﺅں کے بیانات سے لگتا تھا کہ مولانا حکومت کا ساتھ نہیں دیں گے۔ لیکن مولانا کے پاس ان آئینی ترامیم کو ماننے کے سوا کوئی اور آپشن بھی نہیں تھا۔ مولانا جانتے تھے جمعیت علماءاسلام نے 26ویں آئینی ترامیم پر حکومت کو ووٹ نہ بھی کیا تب بھی حکومت یہ ترامیم منظور کرا لے گی۔ ان کے پاس آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ دینے کے علاوہ اور چارہ بھی کوئی نہیں تھا۔
پاکستان میں کسی حکومت نے چلنا ہو تو اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کا ساتھ ضروری ہے۔ ان میں سے ایک آرگن بھی ساتھ چھوڑ جائے تو حکومت نہیں چل سکتی۔ حکومت کی مجبوری تھی اگر حکومت کو قائم رکھنا ہے تو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ عدلیہ کا ساتھ بھی ضروری ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اگرچہ پوری طرح حکومت کے پیچھے کھڑی تھی، تاہم سپریم کورٹ کے فیصلے کچھ ایسے تھے جو حکومت کو ڈانواں ڈول کر رہے تھے۔
جسٹس فائز عیسیٰ بطور چیف جسٹس اپنے عہدے کی ایکسٹینشن نہیں لینا چاہتے تھے۔ لازمی طور پر انھیں اپنی عمر کی معیاد پوری ہونے پر 25 اکتوبر کو ریٹائر ہونا تھا جس کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے سینیارٹی کی بنیاد پر چیف جسٹس بننا تھا۔ حکومت کا خیال تھا کہ منصور شاہ چیف جسٹس بن گئے تو ان کیلئے مسائل پیدا کریں گے۔ بطور چیف جسٹس ان کی عدالت سے ایسا فیصلہ آسکتا ہے کہ انھیں پھر الیکشن میں جانا پڑے۔ حکومت ایسا نہیں چاہتی تھی اسی لیے انھیں 26ویں آئینی ترامیم کا پیکیج لانا پڑا۔ اس ترمیمی پیکیج کے ذریعے 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی کا قیام اور اس کمیٹی کی وساطت سے تین سینئر ترین ججز میں سے بطور چیف جسٹس ایک جج کا انتخاب 26ویں آئینی ترامیم کی ایک شق میں شامل تھا۔ سو، ایسا ہی ہوا۔ پارلیمانی کمیٹی کے پاس جن تین ججز کے نام آئے ان میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اور تیسرے نمبر پر جسٹس یحییٰ آفریدی شامل تھے۔ یہ خبر پہلے ہی آچکی تھی اور جنگل کی آگ کی طرح پھیل بھی گئی تھی کہ یحییٰ آفریدی حکومت کے فیورٹ جج ہیں اور وہی نئے چیف جسٹس ہوں گے۔
نئے چیف جسٹس کا انتخاب کرنے والی پارلیمانی کمیٹی میں پی ٹی آئی کو بھی شامل ہونے کی دعوت دی گئی۔ پی ٹی آئی قیادت نے شمولیت کے لیے تین ناموں کا اعلان بھی کیا۔ لیکن پھر عین وقت پر فیصلہ بائیکاٹ میں بدل گیا۔ اس طرح پارلیمانی کمیٹی نے پی ٹی آئی کی شمولیت کے بغیر پارلیمنٹ ہاﺅس میں اجلاس منعقد کیا جس میں تین سینئر ترین ججز میں سے جسٹس یحییٰ آفریدی کے نام کا قرعہ نکلا اور کمیٹی کی جانب سے بطور چیف جسٹس ان کے نام کا اعلان ہوگیا۔ یحییٰ آفریدی بطور چیف جسٹس ایوان صدر میں 26 اکتوبر کو اپنے عہدے کا حلف اٹھا چکے ہیں۔ ان سے یہ حلف صدر آصف علی زرداری نے لیا۔ اس موقع پر وزیراعظم محمد شہباز شریف، آرمی چیف سید عاصم منیر، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، گورنر صاحبان اور وفاقی وزراءکے علاوہ زعما کی بھی بڑی تعداد حلف برداری کی اس تقریب میں شریک ہوئی۔تقریب حلف برداری میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پورنے بھی شرکت کی، ان کی شرکت نے بہت سے سوال کھڑے کر دیے۔ علی امین گنڈا پور بانی پی ٹی آئی کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں۔ حلف برداری تقریب میں ان کی شرکت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ پی ٹی آئی قیادت نے بطور چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی تعیناتی قبول کر لی ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے 26ویں آئینی ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان بھی سامنے آیا ہے۔
دیکھنا اب یہ ہوگا کہ آئینی ترامیم کے خلاف رٹ پٹیشن سپریم کورٹ میں کب دائر ہوتی ہے۔ اگر یہ پٹیشن دائر ہوتی ہے تو سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے سامنے جائے گی لیکن یہاں یہ بھی واضح رہے کہ آئینی بینچ کی تشکیل ابھی نہیں ہوئی۔ آئینی بینچ کی تشکیل کیلئے 26ویں آئینی ترامیم میں کچھ ابہام پایا جاتا ہے۔ آئینی ماہرین کا کہنا ہے اس ”ابہام“ کو دور کرنے کیلئے 27ویں آئینی ترامیم ضروری ہوگی۔ اس تناظر میں پی ٹی آئی کی جانب سے رٹ پٹیشن دائر ہونے کی صورت میں اس کا حق سماعت یحییٰ آفریدی کے پاس ہوگا۔ لیکن کیا وہ چاہیں گے پٹیشن کے حق میں فیصلہ ہو اور سارا ہی عدالتی نظام الٹ پلٹ ہو جائے۔
26ویں آئینی ترامیم پر پی ٹی آئی کو بہت غصہ ہے۔ پی ٹی آئی کے جن ارکان نے ترامیم کے حق میں ووٹ کیا دیگر بھی ایسے ممبران جن کی وفاداری کو مشکوک سمجھا جارہا ہے۔ پارٹی کی جانب سے انھیں شوکاز نوٹس جاری کر دیے گئے ہیں۔ تاہم 26ویں آئینی ترامیم کی منظوری کے بعد پی ٹی آئی کو بہت مشکل حالات کا سامنا ہے۔ پارٹی میں کرائسس اور فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ اب وہاں فاروڈ بلاک کی بھی باتیں ہونے لگی ہیں۔ ایک بہت ہی باخبر اور پی ٹی آئی سے خصوصی ہمدردی رکھنے والے سینئر جرنلسٹ اور تجزیہ کار کا کہنا ہے جیل میں شاہ محمود قریشی سے کافی معاملات طے پاچکے ہیں۔ پلاننگ کے مطابق انھیں رہا کیا جارہا ہے۔جب ضمانت پر باہر جیل سے آئیں گے تو پارٹی میں فارورڈ بلاک قائم کریں گے۔ شاہ محمود اس میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں؟ آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن اسٹیبلشمنٹ نے اپنا جال پوری طرح پھیلا دیا ہے تاہم غور کرنے اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی عمران خان کے نام سے جانی اور پہچانی جاتی ہے۔ کوئی فارورڈ بلاک بنتا ہے یا کوئی بناتا ہے تو کیا وہ کامیاب بھی ہوگا؟ اسٹیبلشمنٹ اس فارورڈ بلاک سے بہت سی امیدیں لگائے بیٹھی ہے لیکن میرا نہیں خیال شاہ محمود قریشی سمیت پی ٹی آئی کے کسی لیڈر میں اتنا دم خم ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی امنگوں کیمطابق فارورڈ بلاک بناسکے۔ وہ نتائج بھی حاصل کر سکے جو اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کو توڑ کر حاصل کرنا چاہتی ہے۔ آئینی ترامیمی پیکیج بھی اسی منصوبہ بندی کی ایک کڑی ہے۔
آئینی ترامیم اور نئے چیف جسٹس کی تعیناتی
Oct 30, 2024