فل کورٹ اجلاس، سپریم کورٹ میں تقسیم کے تاثر کا ازالہ

چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس ہوا۔ اعلامیہ کے مطابق اجلاس میں تمام مستقل ججز نے شرکت کی۔ رجسٹرار سپریم کورٹ نے کیس لوڈ سے متعلق آگاہ کیا۔ رجسٹرار کے مطابق 59 ہزار 191 کیسز زیر التوا ہیں۔ رجسٹرار نے جسٹس منصور علی شاہ کا تیار کردہ کیس مینجمنٹ پلان پیش کیا۔ پلان میں معیارات وضح کرنا، تمام اقسام کے مقدمات کے مو¿ثر انتظام کیلئے آئی ٹی کا استعمال شامل ہے۔ کیس مینجمنٹ پلان کا جائزہ لیتے ہوئے فاضل ججوں نے مختلف حکمت عملیوں پر غور کیا اور عدالتی نظام میں بہتری کیلئے قیمتی تجاویز اور سفارشات پیش کیں۔ فاضل ججوں نے مقدمات کے بوجھ کو کم کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ویڈیو لنک کے ذریعے مزید تجاویز دیں۔ تجاویز کا مقصد مقدمات کا بوجھ کم کرکے ابتدا میں ایک ماہ کی لئے عدالتی کارکردگی میں بہتری لانا ہے۔ اس کے بعد 3 ماہ اور پھر 6 ماہ کے منصوبے پر عملدرآمد ہوگا۔ چیف جسٹس پاکستان نے تمام برادر ججز کا شکریہ ادا کیا۔ چیف جسٹس نے کیس مینجمنٹ پلان کے مکمل نفاذ کے عزم کا اظہار کیا۔ پیشرفت کا جائزہ اگلے فل کورٹ اجلاس میں لیا جائے گا جو 2 دسمبر 2024ءکو منعقد ہوگا۔
ملک و معاشرے میں نظام عدل کی اہمیت پر برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل کا قول دہرایا جاتا ہے کہ اگر ہمارے ہاں عدالتیں آزاد ہیں،قواعد قانون اور انصاف کے تقاضوں کے تحت انصاف فراہم کر رہی ہیں تو برطانیہ کو کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ہمارے لیے اس سے بھی کہیں زیادہ متاثر کن قول حضرت علی کرم اللہ وجہ کا ہے کہ کفر کا نظام چل سکتا ہے ظلم کا نہیں۔ جس معاشرے میں ظلم کا نظام ہو، تباہی اور بربادی اس معاشرے کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ ریاستی عمارت مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ کے ستونوں پر کھڑی ہے۔ ان میں سے ہر ستون کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ان کے دائرہ کار طے کر دیئے گئے ہیں۔ آئین نے ہر ایک کے فرائض و اختیارات کا تعین کر دیا ہے۔ہمارے ہاں نہ صرف اداروں کی بالادستی کی بحث جاری رہتی ہے بلکہ اس کے لیے ادارے کبھی کبھی ایک دوسرے کے مقابل بھی آجاتے ہیں۔کسی ایک کی دوسرے ادارے پر بالادستی کی بحث بے معنی اور لا حاصل ہے۔ سارے آئینی ادارے ہیں۔ایک جیسے اہمیت کے حامل، سب کی ناگزیریت پر کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی۔ان سب پر آئین بالادست ہے۔
26 ویں آئینی ترمیم لائی گئی۔اس پر وسیع تر اتفاق رائے ہو جاتا تو بہت بہتر تھا۔یہ ترمیم اتنی عجلت میں منظور کرائی گئی کہ اس میں کئی سقم رہ گئے۔ جن کو دور کرنے کے لیے 27 ویں ترمیم کی بات کی جا رہی ہے۔27ویں ترمیم لانے کے دیگر مقاصد بھی ہو سکتے ہیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں ہونے والے فل کورٹ اجلاس کے بعد 27 ویں ترمیم کے بارے میں وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم زیر غور نہیں ہے۔ یہ سب قیاس ارائیاں ہیں۔ 26 ویں ترمیم کی منظوری کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ اس سے اداروں کے مابین ربط و ضبط میں کتنی بہتری آئی ہے؟ ریاست مزید کتنی مضبوط ہوئی ہے؟ ادارے اپنی اپنی جگہ کتنے طاقتور ہوئے ہیں؟ وزیراعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری نے ترمیم کے بعد ملاقات کے دوران کہا کہ اس سے جمہوریت مزید مضبوط ہوئی ہے اور یہ ترمیم غیر جمہوری قوتوں کا راستہ روکنے کے لیے کارگر ہوگی. اپوزیشن کی طرف سے ترمیم کو عدلیہ کو کمزور کرنے کی حکومتی کوشش قرار دیا گیا ہے۔
26 ویں ترمیم کے تحت آئینی بینچ بنایا جانا مقصود ہے۔ جس کی تشکیل اسی ترمیم کے مطابق ہوگی جس میں چیف جسٹس کی سربراہی میں 13 ارکان بینچ کے سربراہ اور ارکان کا انتخاب کریں گے۔
چیف جسٹس کی تعیناتی کے لیے 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی ہے۔ جس نے تین سینیئر موسٹ ججز کے پینل میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ یہ انتخاب دو تہائی اکثریت سے ہوتا ہے جبکہ آئینی بینچ کے سربراہ اور ارکان کی تعیناتی سادہ اکثریت سے ہوگی۔یہ بینچ آئینی مقدمات سنے گا۔ 26ویں ترمیم کے بنیادی مسودے میں وفاقی آئینی عدالت قائم کی جا رہی تھی جس پر جے یو آئی کے ساتھ اتفاق رائے نہ ہونے پر بینچ کی تشکیل پر اتفاق ہوا اور یہی آج آئین کا حصہ بن گیا ہے۔وفاقی آئینی عدالت بنتی یا اب آئینی بنچ بن رہا ہے۔ اس کا مقصد مقدمات کے انبار کو کم کرنا ہے۔ 60 ہزار کے قریب مقدمات کے جلد فیصلوں کے لیے فل کورٹ میں بات کی گئی۔ آئینی عدالت یا بینچ مقدمات کے جلد فیصلوں کے لیے تشکیل دیا جا رہا ہے۔اگر فل کورٹ اجلاس کے لائحہ عمل کے تحت کیسز تیزی کے ساتھ نمٹائے جاتے ہیں، ا±دھر آئینی بینچ بھی یہی کام کر رہا ہوگا تو مقدمات کا بوجھ کم ہوتا چلا جائے گا۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے پہلے دن سوا گھنٹے میں ریکارڈ 24 مقدمات کی سماعت مکمل کی۔ ساڑھے 9   سے پونے 10 بجے تک 15 منٹ میں 30 مقدمات کی سماعت کی۔ انہوں نے 30  میں سے 6 مقدمات مختلف وجوہات پر ساڑھے11 بجے تک ملتوی کر دئیے۔ تھے سپریم کورٹ کے علاوہ ہائی کورٹس اور لوئرکورٹس کے جج صاحبان اسی طرح مقدمات کی سماعت کریں تو بیک لاگ کم از کم سطح پر آسکتا ہے۔
فل کورٹ میں تمام جج صاحبان کی شرکت خوش آئند ہے۔زیرالتواءمقدمات نمٹانے کیلئے جو عزم ظاہر کیا گیا وہ بھی اطمینان بخش ہے۔ کچھ کی سماعت مکمل بھی کی گئی ہے‘ پچھلے ادوار میں عدلیہ میں تقسیم کا جو تاثر ابھرا تھا‘ وہ انتہائی خوفناک تھا۔وہ تاثر اب دور ہو چکا ہے۔عدلیہ کی بہتری اور اصلاحات کیلئے جو یکجہتی نظر آرہی ہے‘ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ برقرار رہے گی جس سے عدلیہ مضبوط ہوگی۔ عدالتی نظام مضبوط ہوگا تو باقی ریاستی ادارے بھی مستحکم ہونگے۔

ای پیپر دی نیشن