پاکستان میں تو ہمیشہ جمہوریت خطرے میں رہی ہے لیکن ان دنوں جو خبریں امریکا سے آ رہی ہیں ان کے مطابق وہاں بھی جمہوریت خطرے میں ہے۔ امریکی انتخابات کا زور و شور ہے اور اس دوران وہاں حالات کوئی بہت اچھے دکھائی نہیں دیتے یہی وجہ ہے کہ وہاں میڈیا میں یہ بحث ہو رہی ہے، لکھا جا رہا ہے کہ امریکی جمہوریت خطرے میں ہے۔ ہم یہاں کرپشن کو رو رہے ہیں دنیا کی بڑی طاقت کی حیثیت رکھنے والے ملک امریکا میں کرپشن انتہاؤں کو چھو رہی ہے اور امریکیوں کی بڑی تعداد کرپشن سے تنگ ہے۔ امریکا میں بھی ہونے والے سروے یہی بتا رہے ہیں کہ حکومت میں آنے والے لوگ اپنے اردگرد کے لوگوں یا اپنے ہی لوگوں کے مفادات کا تحفظ کرتے اور ان کے ہی کام کرتے ہیں۔
امریکی جریدے نیو یارک ٹائمز اور Siena کالج کے اشتراک سے ہونے والے عوامی سروے میں سامنے آئی ہے کہ دو تہائی ووٹرز کا خیال ہے کہ امریکی جمہوریت خطرے میں ہے لیکن امریکا میں جمہوریت کا دشمن کون ہے اس بارے کوئی حتمی رائے قائم کرنے میں ووٹرز ناکام نظر آتے ہیں۔ امریکی ووٹرز سمجھتے ہیں کہ عام لوگوں کی نمائندگی کرنے میں امریکی حکومتوں کی کارکردگی بہت خراب رہی ہے، سیاسی منظر نامے میں بہت تفریق ہے اور دونوں جماعتیں ایک دوسرے پر بالکل اعتماد نہیں کرتیں
تاہم ری پبلکنز اور ڈیموکریٹز، دونوں کے ووٹرز کا اس بات پر اتفاق سامنے آیا کہ ملک میں کرپشن، ایک ناسور ہے، 62 فیصد کا کہنا ہے کہ جو بھی حکومت آتی ہے وہ صرف اپنے اور اشرافیہ کے لیے کام کرتی ہے، 58 فیصد ووٹرز کی رائے میں ملک کے مالی اور سیاسی نظام کو بڑی تبدیلی یا مکمل تبدیلی کی ضرورت ہے۔
دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے ووٹرز اور آزاد ووٹرز کی تقریباً 80 فیصد تعداد کا کہنا ہے کہ 5 نومبر کے صدارتی انتخابات کے نتائج باکل ٹھیک ہوں گے، حالانکہ ڈونلڈ ٹرمپ 2020 کے انتخابی نتائج پر مسلسل سوال اْٹھا رہے ہیں۔ سروے میں میڈیا کے حوالے سے پریشان کن اشارے ملے، صرف اکیس فیصد ووٹرز نے کہا کہ مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا جمہوریت کے لیے اچھے ہیں جبکہ اکاون سے پچپن فیصد نے انہیں بْرا کہا۔ اس سروے سے ایک دن پہلے شائع ہونے والی قومی رائے شماری میں پتا چلا کہ ڈیموکریٹک امیدوار کملا ہیرس اور ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ دونوں کی مقبولیت اڑتالیس فیصد ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی پوزیشن چھالیس فیصد سے بڑھ کر اڑتالیس فیصد ہوئی ہے، سیاسی ماہرین کے خیال میں شاید اسی لیے کملا ہیرس کی مہم اپنے ابتدائی پر اْمید بیانات سے ہٹ کر اب مسلسل یہ پیغام دے رہی ہے کہ ٹرمپ کی کامیابی امریکا کو فاشزم کی تاریکی کی طرف لے جائے گی
امریکہ کی سیاسی تاریخ میں انتخابات کا عمل نہ صرف اس ملک کی داخلی سیاست کا ایک اہم حصہ ہے بلکہ یہ عالمی سطح پر بھی بے شمار اثرات مرتب کرتا ہے۔ امریکہ کی جمہوریت کی بنیاد 1788 میں رکھی گئی، جب پہلی بار الیکٹورل کالج کے ذریعے صدر کا انتخاب کیا گیا۔ اس وقت سے لے کر آج تک، امریکی انتخابات نے دنیا بھر میں جمہوری روایات اور سیاسی تبدیلیوں پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ امریکی انتخابات کے دوران امیدواروں کے نظریات، پالیسیاں اور ان کے ممکنہ اثرات دنیا بھر کے ممالک کیلئے اہمیت رکھتے ہیں۔ جب کوئی نئی حکومت اقتدار میں آتی ہے تو اس کی خارجہ پالیسی کا براہ راست اثر عالمی معاملات، تجارت، اور امن و امان کی صورتحال پر پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر، 2008 میں باراک اوباما کی انتخابی مہم نے دنیا بھر میں ایک نئی امید کی کرن جگائی، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں۔ اوباما کی انتظامیہ نے عالمی مسائل جیسے کہ ماحولیاتی تبدیلی اور بین الاقوامی تعاون کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا۔
اسی طرح، 2016 کے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی نے عالمی سطح پر غیر یقینی کی صورتحال پیدا کی۔ ان کی "امریکہ پہلے" کی پالیسی نے متعدد بین الاقوامی معاہدوں سے دستبرداری اور تجارتی سطح پر محاذ آرائی کا آغاز کیا، جس نے دنیا کے کئی ممالک کی معیشتوں پر منفی اثر ڈالا۔ اس طرح کے فیصلوں نے بین الاقوامی تعلقات میں تناؤ بڑھایا اور دیگر ممالک کیلئے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو مشکل بنا دیا۔
امریکہ کے انتخابات کا اثر نہ صرف خارجہ پالیسی پر ہوتا ہے بلکہ یہ دنیا بھر کی معیشت کو بھی متاثر کرتا ہے۔ جب امریکی معیشت مستحکم ہوتی ہے تو عالمی معیشت بھی اس سے مستفید ہوتی ہے، اور جب امریکی معیشت کو چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے تو دنیا کے دیگر ممالک کو بھی اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ امریکی انتخابات عالمی انسانی حقوق کی تحریکوں کے لئے بھی ایک محرک بن سکتے ہیں۔ جب کوئی صدر انسانی حقوق کی بات کرتا ہے تو اس کے اثرات دنیا بھر میں محسوس کیے جاتے ہیں، اور یہ دوسرے ممالک کے رہنماؤں کو بھی اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ آخر میں، یہ کہنا ضروری ہے کہ امریکی انتخابات کی تاریخ صرف ایک قومی عمل نہیں ہے، بلکہ یہ عالمی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ ہر انتخابی دور میں اٹھنے والے سوالات اور چیلنجز نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک عکاس کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لہذا، ہمیں امریکی انتخابات کو صرف ایک سیاسی عمل کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے، بلکہ ایک عالمی نظرئیے کے طور پر بھی سمجھنا چاہیے جو دنیا کی مستقبل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
آخر میں شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا کلام
متاعِ بے بہا ہے درد و سوزِ آرزومندی
مقام بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی
ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا، نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی، وہاں جینے کی پابندی
حجاب اِکسیر ہے آوارہ کوئے محبّت کو
مِری آتش کو بھڑکاتی ہے تیری دیر پیوندی
گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ و بیاباں میں
کہ شاہیں کے لیے ذلّت ہے کارِ آشیاں بندی
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سِکھائے کس نے اسمٰعیل کو آدابِ فرزندی
زیارت گاہِ اہلِ عزم و ہمّت ہے لحَد میری
کہ خاکِ راہ کو میں نے بتایا رازِ الوندی
مِری مشّاطگی کی کیا ضرورت حْسنِ معنی کو
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حِنابندی