مشرق وسطیٰ کا نقشہ کہاں گم ہوا اور کیسے؟

Oct 30, 2024

عبداللہ طارق سہیل

مصر نے کہا، دو دن کیلئے جنگ بندی کر دو، اسرائیل نے انکار کر دیا۔ مصر نے یہ تجویز کیوں دی؟۔ ظاہر ہے دل لگی کیلئے۔ اسرائیل نے دل لگی کا بْرا نہیں مانا، بس معمول کے لہجے میں انکار کر دیا۔ اسرائیل کی سوچ ایک گھنٹے کی جنگ بندی کی بھی نہیں ہے۔ اب جنہیں پتہ نہیں تھا، انہیں بھی پتہ چل گیا ہے کہ غزہ کی تمام آبادی کے خاتمے کیلئے، منظم اور حتمی نسل کشی کیلئے، نسلی صفایا کرنے کیلئے کام ہو رہا ہے اور ’’فائنل سلوشن solution Final مکمل ہونے تک جنگ بندی نہیں ہو گی۔ اور جنگ ہوبھی کہاں رہی ہے، یکطرفہ قتل عام ہے۔ 
فائنل سلیوشن کا فارمولا جرمنی پولینڈ وغیرہ میں یہودیوں کے مکمل خاتمے کیلئے بنایا گیا تھا۔ جنگ عظیم کئی موڑ مڑی اور ہٹلر مارا گیا، فائنل سلیوشن فائنل مرحلے پر نہ پہنچ سکا، آدھے سے زیادہ یہودی بچ گئے۔ فلسطینیوں کے باب میں ایسا نہیں ہو گا، آخری فلسطینی کو بھی مار کر ہی دم لیا جائے گا۔ ساری دنیا غزہ کا تماشا دیکھ رہی ہے، صرف یہ دیکھنے کیلئے کہ آخری فلسطینی کب مارا جاتا ہے۔ تین طاقتور عرب ملک اور ترکی زیادہ بے چین ہیں۔ غزہ کے لوگ ختم ہوں تو مشترکہ باہمی مفاد، مطلب تجارتی اور تعیناتی کے منصوبے جو اس کھنڈت سے رک گئے ہیں، پھر سے شروع ہوں اور پایہ تکمیل تک پہنچیں۔ نئے پومپی آئی، نئے پرسی پولیس ، نئے سدّوم بسائے جائیں۔ 
___
زمانے کے کچھ انداز بدل جاتے ہیں، کچھ کائناتی مستقل CONSTANT  UNIVERSAL کی طرح کبھی نہیں بدلتے۔ مثال کے طور پر ، زمانہ کتنا ہی بدل جائے، کمزوروں کا قتل عام کبھی نہیں رکتا۔ قانوں سازی کیسی ہی ہو، جرم ضیعفی کی سزا میں تخفیف رکھی نہیں ہوئی، وہ مرگ مفاجات ہی رہتی ہے۔ 
جو انداز بدلے گئے ان میں مشرق وسطیٰ کا ’’روحانی نقشہ‘‘ بھی ہے۔ نئی نسل کی دلچسپیاں اور ہیں لیکن میرے ہم عصر اور ہم عمر جانتے ہیں کہ 1973ء  میں مشرق وسطیٰ کا نقشہ کیا تھا۔ اسرائیل چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرا ہوا تھا۔ قدامت پرست سعودی عرب اور اردن سے لے کر ترقی پسند قذافی اور  بو مدائین.سبھی اسرائیل کے دشمن تھے۔ امریکہ کو تسلی تھی کہ اسرائیل اپنا دفاع کر سکتا ہے۔  نہ کر سکا تو ہم کس کام کیلئے ہیں۔ 1967ء کی جنگ اس بات کا ثبوت تھی کہ نکمے، بزدل، عیاش عرب جنگ لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، امریکہ اس رائے پر پہنچ چکا تھا۔ لیکن 1973ء کی جنگ نے امریکہ کو پریشان کر دیا۔ انواراسادات کی فوجوں نے اچانک یلغار کی اور جزیرہ نما کے سینا کا لگ بھگ ایک تہائی حصہ پہلے ہی ھلّے میں واپس لے لیا جس پر چھ سال پہلے اسرائیل نے قبضہ جما لیا تھا۔ مصری فوج چھلاوے کی طرح نکلی اور نہر سویز کے کنارے اسرائیل کی ناقابل تسخیر ’’بارلیو لائن‘‘ کو ادھیڑتی، اسرائیلی فوج کو کھدیڑتی ہوئی صحرا کے تقریباً وسط میں پہنچ گئی۔ 
امریکہ نے مداخلت کی، اسرائیل نے پلٹ کر وار کیا اور صورتحال کا پانسہ پلٹ گیا۔ جنگ بندی ہوئی اور اس کے بطن سے کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو معاہدے نکلے لیکن اصل ماجرا کچھ اور ہوا۔ امریکہ کو تشویش لاحق ہوئی کہ جب تک عربوں اور یہودیوں میں دشمنی ہے، اسرائیل کا وجود خطرے میں رہے گا۔ 
دشمنی ختم کرنا ہو گی، اسرائیل کے گرد دوستوں کا محاصرہ کھڑا کرنا ہو گا، ایسا حصار جیسا زباں کے گرد 32 دانتوں کا ہوا کرتا ہے۔ 
عربوں کو اسرائیل کا دوست کیسے بنایا جائے۔ ناممکن تھا لیکن پھر یہ ناممکن اچانک سے ممکن میں بدلنے لگا۔ 
___
1979ء میں ایران کے شاہ کا تختہ الٹ دیا گیا۔ ایران  کا شاہ عرب ممالک پر بالادستی یا برتری کا قائل یا علمبردار تھا لیکن اس نے کبھی عرب ممالک پر قبضے کی سوچ نہیں رکھی تھی۔ بہرحال خمینی صاحب فرانس سے طیارے پر تشریف لائے اور ایرانی حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی۔ یہ اطلاع چار دانگ عالم میں پھیل گئی کہ ایران میں اسلامی انقلاب آ چکا ہے۔ ہر طرف لاشرفیہ، لاغربیہ کے نعرے بلند ہونے لگے۔ 
کچھ عرصہ یہ غلغلہ رہا، پھر اچانک عرب ممالک پر قبضے کی باتیں ہونے لگیں۔ امریکی ایجنٹ حکمرانوں کو ہٹا کر یہاں بھی ’’اسلامی انقلاب‘‘ لایا جائے گا۔ ایرانی حکومت نے سرکاری طور پر اگرچہ ایسا بیان کبھی نہیں دیا لیکن ایرانی میڈیا اور مولویان کرام کے بیانات آنے ضرور شروع ہو گئے کہ مکّہ اور مدینہ کے مقامات مقدسہ آزادی کیلئے ہمارے منتظر ہیں۔ سعودی عرب میں دنگے فساد تک نوبت پہنچی۔ حج میں ہنگامہ آرائی ہوئی، بحرین اردن یمن میں شرارے کوندنے لگے۔ 
عربوں کو اپنی ’’سروائیول‘‘ کی پڑ گئی۔ خلیجی ریاستوں کو خاص طور پر کہ ان کی دفاعی طاقت صفر تھی۔ انہیں کون بچائے گا؟۔ ظاہر ہے امریکہ اور ظاہر ہے کہ اسرائیل۔ دیکھتے ہی دیکھتے تمام عرب دارالحکومتوں میں اسرائیل سے دوستی کی پکار بلند ہونے لگی اور آج اسرائیل چاروں طرف سے ترکی، مصر ، سعودی عرب، اردن ، شام اور عراق کے ’’محافظانہ نرغے‘‘ میں ہے۔ عراق بڑا خطرہ تھا، صدام حکومت ختم کر کے اس کی فوج کچل دی گئی۔ 
اس محفوظ اور مضبوط حصار کی ’’برکت‘‘ ہے کہ گرم ہوا کا جھونکا اسرائیل تک نہیں پہنچ سکا۔ ترکی کی سیکولر حکومت اسرائیل سے سفارتی تعلقات رکھتی تھی لیکن فلسطینی کاز کی حامی تھی۔ چنانچہ وہاں طیّب اردگان کی ’’اسلامی‘‘ حکومت لائی گئی تاکہ ’’اسلام‘‘ کے جھنڈے کی آڑ میں اسرائیل کو قیمتی ایندھن اور دیگر ضروریات کی سپلائی ہو سکے، بے خطر ، مسلسل اور ہموار سپلائی۔ لوگوں کو شبہ تک نہ ہوا کہ خلیفہ ارطغرل بھی اسرائیل کا محافظ ہو سکتا ہے۔ 
آج غزہ سے فلسطینی نسل مٹنے کو ہے۔ جو نسل ابھی تک بچی ہوئی ہے، گھڑی بھر کی مہمان ہے۔ 
___
اسرائیل اور ایران کے درمیان تصادم امریکہ کے نقشے میں نہیں تھا۔ لیکن کئی چیزیں نقشے میں نہ ہونے کے باوجود، حادثاتی طور پر، درآئی ہیں۔ ایران کا نقشہ تقاضا کرتا تھا کہ لبنان اس کے کنٹرول میں ہو، پھر باقی عرب ملکوں کی باری آئے گی۔ اسرائیل لبنان کو اپنی انیکسی تصور کرتا تھا۔ لبنان کا مسئلہ ہی پھر وجہ تنازعہ بنا اور اسرائیل اور ایران میں مخاصمت شروع ہو گئی۔ 
ایران نے اپنا دفاعی نظام میدان جنگ کے حوالے سے کبھی بنایا ہی نہیں۔ اس نے پراکسی تنظیمیں بنائیں اور انہی نے آگے بڑھنا تھا۔ چنانچہ جب اسرائیل نے ایران پر حملے شروع کئے تو ایران بے بس اور لاچار نظر آیا۔ اس کے میزائل اسرائیل گرا لیتا ہے، وہ اسرائیل کے میزائل نہیں گرا سکتا۔ 
ایران نے اپنا جنگی تسلّط شام لبنان سے یمن تک پھیلا دیا اور حتمی نتیجے کا اندازہ نہ کر سکا۔ اس کا میزائل خانہ برباد ہو گیا ہے، لبنان میں حزب اللہ پسپائی اختیار کر رہی ہے۔ اس کے جنگجوئوں کا ایک دھڑا بے جگری سے لڑ رہا ہے لیکن نتیجہ ابھی سے نظر آ رہا ہے۔ 
ہمارے کچھ ماہر جنگ کا دائرہ پھیلتے ہوئے دیکھ رہے ہیں لیکن کیسے؟ 
کیا چین ایران کی مدد کیلئے اپنی فوج اتارے گا؟۔ روس یوکرائن سے سینگ پھنسا کر اپنی سالمیت کو دائو پر لگا چکا ہے، اس میں اتنا کس بل نہیں کہ مداخلت کر سکے۔ کس بل ہوتا تب بھی اس نے کہاں مداخلت کرنا تھی۔ 
جنگ کا دائرہ کیسے پھیلے گا؟۔ ہاں، غزہ کا صفایا ہوتا ہوا ضرور نظر آ رہا ہے۔

مزیدخبریں