علم وادب وتحقیق کی دنیاہویامیدان سیاست وصحافت اوروکالت ہو۔طب اورانجنیئرنگ کے شعبے ہوں یا فنون لطیفہ کے رنگ۔تعلیم وتدریس کا شعبہ ہویاانتظام مملکت اورانصرام سلطنت وریاست کے اسرارورموزہوں۔ میری مادرعلمی (جامعہ پنجاب)کے تذکرے کے بغیرتاریخ ہمیشہ نامکمل ہی رہے گی۔
میں جامعہ أزھرکے ساتھ جامعہ پنجاب کا تقابل تونہیں کرتا لیکن قسمت نوع بشرکی تبدیلی میں اپنی مادرعلمی (جامعہ پنجاب)کوکم تربھی نہیں سمجھتا۔اس ضمن میں جامعہ پنجاب کے کماحقّہ تذکرے کے لیے آب زرتوشاید میسرنہ ہو،صفحہ قرطاس پرسنہری حروف میں بھی نہ لکھا جاسکے تا ہم اس سلسلے میں میری مادرعلمی کا تذکرہ ہمیشہ یادگارہی رہے گااورجب تک یہ دنیارہے گی تب تک ’’کہانی محبت‘‘ کی زندہ رہے گی۔
جامعہ پنجاب کے وائس چانسلرزکا تذکرہ بھی قلم وقرطاس کی استعدادسے باہرہے۔میری پیاری جامعہ کی تأ سیس کے دن (اکتوبر1882)کے پہلے وائس چانسلرسرجیمزلائل سے لے کرنئے وائس چانسلرکے پیش روتک سب نے جامعہ پنجاب کی ترقی اورفروغ تعلیم وتحقیق میں بقدرجثّہ حصہ ڈالا اور جریدہ عالم پرانمٹ نقوش ثبت کیے اس لیے نئے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹرسیدمحمدعلی سے وابستہ توقعات میں اضافہ ہوجاتاہے۔ پروفیسرڈاکٹرسیدمحمدعلی نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایس سی کی۔تدریس کا آغازبحیثیت لیکچررلارنس کالج گھوڑاگلی مری سے کیا۔1999میں برطانیہ کی ویلزیونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ اور2008میں کولمبیاکی یونیورسٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔کوئی دقیقہ فروگذاشت کیے بغیرتعلیم وتدریس اورتحقیق کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے ۔سینکڑوں تحقیقی مقالے بین الأقوامی جرائد میں شائع ہوئے۔خدمت میں عظمت کے مصداق کئی اعلٰی اعزازات کے اہل ٹھہرے۔اکیڈمی آف سائنسزگولڈ میڈل ،بہترین یونیورسٹی ٹیچرایوارڈملا،تمغہ امتیازاورستارہ امتیاز نے بھی خدمت اورقابلیت کومثالی بنادیا۔استاد اوروائس چانسلر کی حیثیت سے پروفیسرڈاکٹرسید محمدعلی کا شاندارکیریئرکسی مدح وستائش کا محتاج نہیں۔بہاء الدّین زکریا یونیورسٹی ملتان ہو، جی سی یونیورسٹی فیصل آبادہویاقائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد،وہ جہاں بھی گئے اپنی خداددادصلاحیتوں کا لوہا منوایا۔اب انہوں نے جامعہ پنجاب کے وائس چانسلرکا منصب کا سنبھالاہے جہاں کبھی وہ طالب علم ہواکرتے تھے۔ ’’کلّ شیئٍ یرجع الٰی أصلہ‘‘(ہرچیزاینی اصل کی طرف رجوع کرتی ہے)کا مصداق ٹھہرے ہیں ۔جامعہ پنجاب کا وائس چانسلربننے پر’’چشم ماروشن ،دل ماشاد‘‘کے مصداق مجھ سمیت ہر’’پنجابیئن‘‘ نہ صرف خوش ہے بلکہ آپ کی راہوں میں پلکیں بچھائے ہوئے اوردیدہ ودل فرش راہ کیے ہوئے ہے اورمادرعلمی کی دن دگنی رات چگنی ترقی کے لیے دعا گوہے،مجھے خالدبن ولیدہال (لاء کالج ہاسٹل)کے ہر سالانہ عشائیے پرسابق سپرنٹنڈنٹ ہاسٹل اصغرعلی بھٹہ کی طرف سے لَے اورخوش الحانی سے پڑھی جانیوالی نظم ’’اے خداایں جامعہ قائم۔‘‘آج بھی یادہے جو کانوں میں گونجتی رہتی اوریادماضی کو تازہ کرتی رہتی ہے۔جب وہ پورے جوش وجذبے سے اشعارپڑھتے توسینوں میں موجوددلوں کی دھڑکنیں اورتیز ہوجاتیں ،طلبہ جھوم جھوم اٹھتے اورسپرنٹڈنٹ ہاسٹل کی شان میں زبردست اورپرجوش نعرے لگاتے ۔ احمدندیم قاسمی کے الفاظ میں رب کریم وعظیم کے حضوردعاگوہوں ؎ (آمین)
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو