محکمہ تعلیم پنجاب نے کچھ روز قبل فیصلہ کیا کہ جس طرح بچوں کی قابلیت جانچنے کے لیے امتحانات کا انعقاد کیاجاتا ہے اسی طرح اساتذہ اور پرنسپل کی قابلیت کو ماپنے کے لیے کوئی پیمانہ ہونا چاہیے ۔ لہذا محکمہ تعلیم نے فیصلہ کیا کہ پنجاب بھر کے اساتذہ کا ان کے متعلقہ مضمون میں ٹیسٹ منعقد کیا جائے جس میں Written ٹیسٹ کے بعد انٹرویو بھی ہوگا، اور کامیاب ہونے والے پہلے دس اساتذہ کو سکالر شپ پر یوکے بھیجا جائے گا۔ لیکن ہم کیا دیکھتے ہیں کہ ٹی این اے ٹیسٹ سے بائیکاٹ کی باقائدہ مہم اساتذہ یونینز کی جانب سے سامنے آئی۔ جبکہ ان کی جانب سے سننے کو آیا کہ حکومت اس ٹیسٹ کے ذریعے ناکام ہونے والے اساتذہ کو برطرف کر دے گی چنانچہ موقف اپنایا گیا کہ اساتذہ کا معاشی قتل نہیں ہونے دیں گے۔
محکمہ سکولز کا ٹریننگ اینڈ اسیسمنٹ ٹیسٹ ناکام بنانے کے لیے صوبہ بھر کے اساتذہ نے ٹیسٹ کا مکمل بائیکاٹ کیا۔تفصیل کے مطابق پورے پنجاب میں 720 ٹیسٹ سنٹرز تھے اور ہر سنٹر پر 60 ٹیچرز کا ٹیسٹ تھا ۔ ٹیسٹ دینے والے ٹیچرز کی تعداد 43200 تھی جبکہ پورے پنجاب سے جو ٹیچرز ٹیسٹ دینے آئے ان کی تعداد 100 سے زائد نہ تھی۔ ٹیچرز یونین کا کہنا تھا کہ تمام اساتذہ ٹیسٹ اور انٹرویو کے بعد بھرتی ہوئے ہیں ، اب دوبارہ ان کے ٹیسٹ کی کیا ضرورت آن پڑی۔ یہ ڈائون سائزنگ کے لیے ایک حربہ ہے لہذا تمام اساتذہ ٹی این اے کا مکمل بائیکاٹ کریں۔ اس حوالے سے نوائے وقت نے جب سیکرٹری سکول ایجوکیشن خالد نذیر وٹوسے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ چند کالی بھیڑوں نے اپنی نااہلی چھپانے کے لیے یہ ڈائون سائزنگ کا بہانہ بنایا ہے حالانکہ محکمہ سکول نے ایسا کبھی نہیں سوچا۔ اگر ٹی این اے کا مقصد یہ ہوتا تو ہم چھپاتے نہیں بلکہ واضح طور پر بتاتے۔ سیکرٹری سکول ایجوکیشن پنجاب خالد نذیر وٹو کا مزید کہنا تھا کہ وزیر تعلیم پنجاب رانا سکندر حیات اساتذہ کی فلاح و بہبود کے لیے ہر دم کوشاں رہتے ہیں ، ان کی خاص ہدایت پر ہم نے اساتذہ کے لیے یو کے کی دس سکالر شپس حاصل کیں۔ اب یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ ہم کس کس کو یہ سکالر شپ دیں لہذا ہم نے ٹی این اے ٹیسٹ کروانے کا فیصلہ کیا اس طرح ہمیں اساتذہ کی ٹریننگ اور قابلیت کا اندازہ بھی ہوگا اور ہم پہلے دس کامیاب اساتذہ کو یوکے بھیج سکیں جہاں وہ بین الاقوامی معیار تعلیم سے روشناس ہوں ۔ لیکن چند کالی بھیڑوں نے اپنی ناہلی چھپانے کے لیے تمام اساتذہ میں یہ تشویش پیدا کر دی کہ شاید اس امتحان میں ناکامی کی صورت میں انہیں نوکری سے برخاست کر دیا جائے گا۔خالد نذیر وٹو نے مزید کہا کہ ہمارے پاس اطلاعات ہیں کہ جواساتذہ امتحان دینا چاہتے تھے انہیں پرنسپلز کی جانب سے دھمکی ملی کہ اگر وہ ٹیسٹ دینے گئے تو انہیں سکول سے نکلوا دیا جائے گا۔ جبکہ ٹیچرز یونین کے عہدیداران کی جانب سے ہماری سی اوز اور اساتذہ کو دھمکیاں بھی ملی۔ یونین والوں نے امتحانی سنٹرز کے باہر باقائدہ چارپائیاں بچھا لیں اور آنے والے ٹیچرز کو واپس بھیج دیا گیا۔ مجھے ایک ٹیچر کی کال آئی کہ سر میں امتحانی مرکز کے باہر ہوں لیکن ٹیچر یونین کے افراد مجھے اندر نہیں جانے دے رہے۔ میں نے ڈی سی کو کال کی اور وہاں ان لوگوں کو ہٹوایا ،تب جا کر اس خاتون ٹیچر نے امتحان دیا۔ یعنی اس حد تک ٹیچرز کو امتحانی مراکز جانے سے روکا گیا۔
امتحان کس نوعیت کاتھا کے جواب میں سیکرٹری سکولز ایجوکیشن خالد نذیر وٹو نے ہمیں بتایا کہ یہ بالکل ایک سادہ اور آسان ٹیسٹ ہے جس میں متعلقہ ٹیچر کے مضمون کا ٹیسٹ لیا جائے رہا ہے۔ یعنی اگر کوئی ٹیچر پرائمری کی اسلامیات پڑھا رہا ہے تو اس سے وہی سوال ایم سی کیوز کی صورت میں پوچھے گئے ہیں۔ آپ مجھے بتائیں کہ ایک استاد کے لیے کیا مشکل ہوگا وہ ٹیسٹ دینا جسے وہ کئی سالوں سے بچوں کو پڑھا رہا ہے؟ صرف وہی ٹیچر اس ٹیسٹ سے پریشان ہوگا جو نااہل ہے۔
اب ہم نے ٹیچرز کی آسانی کے لیے ٹیسٹ آن لائن کر دیا ہے۔ جس کے لیے 40 منٹ مختص کیے گئے ہیں۔ ہم نے یہ سسٹم ایسا بنایا ہے کہ اسے ٹیچر کے علاوہ کوئی حل نہیں کر سکتا ورنہ دوسری صورت میں ہمیں پتہ چل جائے گا۔ اس کے علاوہ ٹیچر دوران ٹیسٹ گوگل بھی استعمال نہیں کر سکے گا۔ لہذا نقل کی گنجائش نہیں ہے۔ آن لائن ٹیسٹ ان اساتذہ کے لیے سہولت ہے جو دھمکیوں کی وجہ سے امتحانی مراکز نہ آپائے،اب وہ گھر بیٹھے اپنا ٹیسٹ دے سکیں گے۔
امتحانی سسٹم میں رکاوٹ بننے والے عناصر سے محکمہ کیسے نمبٹے گا کے جواب میں سیکرٹری سکول ایجولیشن نے کہاکہ ایسے عناصر کی شناخت کر رہے ہیں۔ ٹیسٹ کے بائیکاٹ میں پیش پیش رہنے والے یونین عہدیداروں کا ڈیٹا مرتب کرنا شروع کردیا ہے جس کے تحت سنٹرز پر موجود یونین عہدیداروں کی تصاویر اور ویڈیوز اکٹھی کی گئیں جن کے خلاف مضبوط اور فیصلہ کن کارروائی کی جائے گی۔ ہمارے پاس ایسے اساتذہ کا ڈیٹا ہے جو دوسرے اساتذہ کو بائیکاٹ کے لیے باقائدہ دھمکاتے رہے ہیں۔ جبکہ ٹیسٹ نہ دینے والے ٹیچرز کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی ۔